پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے منگل کو افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا۔
جہاں فوجیوں سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ پوری قوم دہشت گردوں کے نظریات کو رد کر چکی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج ہر طرح کے حالات میں قبائلی عوام کی مدد جاری رکھے گی۔
جنرل راحیل ایک ایسے وقت جنوبی وزیرستان گئے جب اس قبائلی علاقے سے متصل شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف گزشتہ ہفتے ہی فوج نے زمینی اور فضائی کارروائی کرتے ہوئے غیر ملکی عکسریت پسندوں اور اہم شدت پسند کمانڈروں سمیت 70 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حکومت نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک میں بحالی امن کی کوششیں شروع کی تھیں جو تعطل کا شکار ہیں۔
مذاکرات میں تعطل کے بعد شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں بھی تیزی آئی جس کے بعد فوج نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر پہ در پہ حملوں میں متعدد اہلکار ہلاک ہوئے۔
جنرل راحیل یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج مذاکرات کی حمایت کرتی ہے لیکن ان کے بقول دہشت گردانہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
فوجی کارروائیوں کے بعد بعض ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا ہے لیکن وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نہ تو ہو رہا ہے اور نہ ہی بھرپور آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی "ٹارگٹڈ کارروائیاں" ہیں جن کے بارے میں کہا جا چکا ہے کہ شدت پسندوں کی طرف سے حملوں کی صورت میں دفاعی ادارے جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے خصوصاً شمالی وزیرستان میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند ملک اور سرحد پار افغانستان میں یہاں سے کارروائیاں کرتے ہیں۔
جہاں فوجیوں سے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ پوری قوم دہشت گردوں کے نظریات کو رد کر چکی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج ہر طرح کے حالات میں قبائلی عوام کی مدد جاری رکھے گی۔
جنرل راحیل ایک ایسے وقت جنوبی وزیرستان گئے جب اس قبائلی علاقے سے متصل شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف گزشتہ ہفتے ہی فوج نے زمینی اور فضائی کارروائی کرتے ہوئے غیر ملکی عکسریت پسندوں اور اہم شدت پسند کمانڈروں سمیت 70 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حکومت نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک میں بحالی امن کی کوششیں شروع کی تھیں جو تعطل کا شکار ہیں۔
مذاکرات میں تعطل کے بعد شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں بھی تیزی آئی جس کے بعد فوج نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر پہ در پہ حملوں میں متعدد اہلکار ہلاک ہوئے۔
جنرل راحیل یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج مذاکرات کی حمایت کرتی ہے لیکن ان کے بقول دہشت گردانہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
فوجی کارروائیوں کے بعد بعض ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا ہے لیکن وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نہ تو ہو رہا ہے اور نہ ہی بھرپور آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی "ٹارگٹڈ کارروائیاں" ہیں جن کے بارے میں کہا جا چکا ہے کہ شدت پسندوں کی طرف سے حملوں کی صورت میں دفاعی ادارے جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے خصوصاً شمالی وزیرستان میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند ملک اور سرحد پار افغانستان میں یہاں سے کارروائیاں کرتے ہیں۔