پاکستان میں صنفی بنیادوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے شعور بیدار کرنے کی 16 روزہ مہم جاری ہے جس میں حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے علاوہ تحفظ خواتین کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا کردار انتہائی اہم ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ پولیس کے مرد اور خواتین اہلکاروں کی ایک کانفرنس میں تشدد کے خلاف موقف اختیار کرنے سے متعلق بحث کی گئی۔ اس تقریب میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن بھی شریک ہوئے۔
اپنے خطاب میں سفیر اولسن نے شرکا سے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کریں اور’’ثابت کریں کہ وہ بھی ویسا ہی احترام ، تربیت اور کیریئر میں ترقی کا حق رکھتی ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ جب خواتین اور بچیوں کو تعلیم، روزگار اور سیاسی میدان میں مساوی حقوق ملیں تو یہ اپنے خاندان، معاشرے اور قوم کی ترقی کا زینہ بنتی ہیں۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں اسلام آباد میں لگ بھگ 60 سماجی اداروں پر مشتمل انسانی حقوق اتحاد کے زیر اہتمام ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں شرکا نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے قائم ’’قومی کمیشن برائے وقار نسواں‘‘ کو مزید موثر بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ اس کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات اور ان نگرانی کی جا سکے۔
حقوق نسواں کے لیے سرگرم تنظیمیں حالیہ برسوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کو تو خوش آئند قرار دیتی ہیں لیکن ان پر موثر عمل درآمد نہ ہونے پر نالاں ہیں۔
اسلام آباد میں منعقدہ پولیس کے مرد اور خواتین اہلکاروں کی ایک کانفرنس میں تشدد کے خلاف موقف اختیار کرنے سے متعلق بحث کی گئی۔ اس تقریب میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن بھی شریک ہوئے۔
اپنے خطاب میں سفیر اولسن نے شرکا سے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کریں اور’’ثابت کریں کہ وہ بھی ویسا ہی احترام ، تربیت اور کیریئر میں ترقی کا حق رکھتی ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ جب خواتین اور بچیوں کو تعلیم، روزگار اور سیاسی میدان میں مساوی حقوق ملیں تو یہ اپنے خاندان، معاشرے اور قوم کی ترقی کا زینہ بنتی ہیں۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں اسلام آباد میں لگ بھگ 60 سماجی اداروں پر مشتمل انسانی حقوق اتحاد کے زیر اہتمام ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں شرکا نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے قائم ’’قومی کمیشن برائے وقار نسواں‘‘ کو مزید موثر بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ اس کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات اور ان نگرانی کی جا سکے۔
حقوق نسواں کے لیے سرگرم تنظیمیں حالیہ برسوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کو تو خوش آئند قرار دیتی ہیں لیکن ان پر موثر عمل درآمد نہ ہونے پر نالاں ہیں۔