پاکستان میں خواتین کے حقوق خصوصاً حق حصول تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے میں سرگرم مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ مشکلات اور دشواریوں کے باوجود وہ اپنے پیغام اور مشن کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں جس میں گزرتے وقت کے ساتھ انھیں قابل ذکر کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
2002ء میں پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں ایک پنچائیت کے حکم پر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی نے اس واقعے سے دلبرداشتہ ہو کر خاموش ہو جانے کی بجائے نہ صرف قانون کا دروازہ کھٹکٹھانے کا فیصلہ کیا بلکہ خواتین سے امتیازی سلوک کے خلاف ایک توانا آواز کے طور پر دنیا بھر میں اپنی شناخت بھی بنائی۔
منگل کو پہلی مرتبہ انھوں نے اپنے پیغام کو اجاگر کرنے کے لیے فیشن کی دنیا میں قدم رکھا اور کراچی میں منعقدہ فیشن ویک میں ڈزائنر روزینہ منیب کا تیارہ کردہ عروسی جوڑا زیب تن کر کے ریمپ پر مختلف ماڈلز کے جلو میں واک کی۔
اس موقع پر حاضرین ان کی پذیرائی کے لیے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مختاراں مائی نے کہا کہ یہ ان کے لیے ایک مختلف لیکن خوش کن تجربہ تھا۔
"بہت اچھا تجربہ تھا، میں جو پیغام دینا چاہتی تھی میرا خیال ہے کہ وہ پیغام پہنچا ہے جو لوگ وہاں بیٹھے تھے جب میں گئی تو وہ سارے کھڑے ہو گئے تو جب وہ کھڑے ہوئے تو مجھے بہت حوصلہ ہوا۔"
مختاراں مائی نے اپنے آبائی قصبے میروالہ میں خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ بنائی جہاں تشدد کی شکار خواتین کو نہ صرف سر چھپانے کی جگہہ دی جاتی ہے بلکہ انھیں قانونی معاونت فراہم کرنے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہیں انھوں نے بچوں کے لیے اسکول بھی قائم کیا تھا۔
مختاراں کہتی ہیں کہ خواتین کو اب بھی انصاف کے حصول میں بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے لیکن یہ امر خوش آئند ہے کہ لوگ اب خواتین پر تشدد اور امتیازی سلوک کے خلاف زیادہ کھل کر بات کرتے ہیں۔
"انشاء اللہ جس رفتار سے عورتیں آواز اٹھا رہی ہیں امید ہے انصاف ضرور ملے گا۔"
انھوں نے بتایا کہ برسوں پہلے ان کے قائم کردہ اسکول میں صرف چار بچیاں تھیں لیکن اب نہ صرف سیکڑوں بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں بلکہ بہت سے طلبا فارغ التحصیل ہو کر اپنے لیے باعزت روزگار بھی کما رہے ہیں۔
"جیسے کہتے ہیں کہ جب ایک درخت لگاؤ تو اس کا پھل کھانے میں وقت لگتا ہے میں کہتی ہوں کہ میرے لیے بھی یہی تھا ہمارے چھ بیج میٹرک کر کے چلے گئے ہیں اور ٹیچر بن کر اپنے آفس میں اپنے اسکول میں پڑھا رہی ہیں بچیاں۔ اسی طرح دیکھیں کہ 700 بچے اس اسکول میں پڑھتے ہیں جہاں پہلے اینٹیں مار جاتی تھیں گالی گلوچ کی جاتی تھی۔"
فیشن کی چکاچوند میں حقوق نسواں اور تعلیم کے حق کے پیغام کو شامل کرنے کی اس کوشش کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی نمایاں طور پر کوریج دی گئی۔