پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے حکم پر ملکی سطح کے تین اور ایک شہری نجی ٹی وی چینلز کی نشریات 24 گھنٹے بند رہنے کے بعد بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ان تین چینلز میں 24 نیوز، اب تک ٹی وی اور کیپٹل ٹی وی جب کہ لاہور شہر میں چلنے والا سٹی 42 چینل شامل ہیں۔
چینلز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آف ایئر کرنے سے متعلق انہیں پیمرا کی طرف سے باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے چینلز کی بندش کو آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں تین ملکی سطح کے اور ایک سٹی چینل کو پیر کی شام اچانک بند کر دیا گیا، جس کے بعد ان چینلز نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپنے چینلز بند کیے جانے کے خلاف آواز بلند کی۔
ان چینلز کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ بتائے بغیر اور ان کا موقف سنے بغیر پیمرا اور کیبل آپریٹرز کے ذریعے ملک بھر میں یہ تینوں چینلز بند کر دیے گئے۔
24 نیوز کے ڈائریکٹر نیوز میاں طاہر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہمارا جرم 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کیبل آپریٹرز اور اپنے ناظرین کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ ہمارا چینل بند کر دیا گیا ہے۔ اس پر ہم نے پیمرا کے چیئرمین اور دیگر حکام سے رابطے کی کوشش کی تو ہمارا فون بھی نہیں سنا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے فیصلہ کر لے کہ کس چینل پر کیا چلنا ہے اور کیسے چلنا ہے۔ ہمیں ایک بار آگاہ کر دیا جائے کیونکہ اس انڈسٹری سے ہمارے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
ان چینلز کی بندش سے متعلق جو معلومات سامنے آئی ہیں، اس کے مطابق انہیں مریم نواز کا منڈی بہاؤالدین کا جلسہ کسی تعطل کے بغیر دکھانے پر بند کیا گیا ہے۔
پاکستان کے بیشتر بڑے چینلز نے بھی یہ جلسہ براہ راست دکھایا۔ لیکن جس جگہ مریم نواز نے عدلیہ یا ریاستی اداروں کے خلاف بات کی وہاں آواز بند کر دی گئی یا پھر نیوز اینکرز نے مریم شریف کی تقریر سے متعلق بات کرنا شروع کر دی۔ لیکن ان چاروں چینلز پر مریم نواز کی تقریر بغیر کسی تعطل کے مسلسل چلتی رہی، جس پر یہ چینلز آف ایئر کر دیے گئے۔
چینلز کی بندش پر مریم نواز نے اپنی ایک ٹویٹ میں تین چینلز کے لوگو لگائے اور لکھا “ ناقابل یقین فاشزم۔شیم”
پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ اس فاشسٹ حکومت میں اب ہمارے پاس آزاد میڈیا نہیں ہے۔ چینلز کو بلا نوٹس اسکرین سے ہٹا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب صحافیوں کو ذاتی آراء کی آزادی پر کمپرومائنز کرنا پڑ رہا ہے۔ اب صحافی ٹویٹ نہیں کر سکتے۔ اگر کریں گے تو وہ ٹویٹر اکائونٹ بھی بند ہو جائے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آپ دبا رہے ہو تو فرسٹریشن کسی نہ کسی طریقے سے باہر نکلے گی جو نقصان دہ ہو گا۔ اس میڈیا پر انڈین پائلٹ اور سابق غدار بھگوڑے آمر کا انٹرویو چل سکتا ہے۔ لیکن قبائلی علاقے کے نوجوان اور سابق صدر، سابق وزیر اعظم کا انٹرویو نہیں چل سکتا۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) نے بھی چینلز کی بندش کو غیر قانونی قرار دیا۔ شاہدخاقان عباسی کہتے ہیں کہ پیمرا ہمارے دور میں سات ہزار روپے جرمانہ وصول نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن آج بغیر کسی نوٹس کے چینلز آف ایئر کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت کسی کو بھی آزادی نہیں۔ اسپیکر کی طرف سے لفظ سلیکٹڈ کہنے پر پابندی ہے تو میڈیا کیسے آزاد ہو سکتا ہے۔
چینلز کی بندش پر صحافیوں کے اجتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے اور اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر سینکڑوں صحافیوں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مظاہرہ کیا۔ ان چینلز کی بندش پر وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت نے کسی چینل کو بند کرنے کی ہدایت نہیں دی۔ پیمرا ایک خودمختار ادارہ ہے۔ لیکن حکومت نے پیمرا سے یہ سوال ضرور کیا ہے کہ سزا یافتہ شخص اور نیب کی حراست میں موجود شخص کے انٹرویوز کس جمہوریت اور قانون کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی چینل بند نہیں کیا۔
پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے موجودہ دور حکومت میں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور اب اس وقت بیشتر میڈیا ہاؤسز میں تنخواہیں کئی کئی ماہ کی تاخیر سے ادا کی جارہی ہیں، جب کہ سینکڑوں کارکنوں کو ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے۔