رسائی کے لنکس

سابق فوجی صدر کی جائیداد ضبط اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پرویز مشرف کے وکلا کی ٹیم میں شامل فیصل چودھری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سابق فوجی صدر نے 2008ء میں اپنی تمام جائیداد اپنے اہل خانہ کو تحفتاً دے دی تھی لہذا یہ ضبط نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان میں آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی ملک میں موجود تمام جائیداد ضبط اور بینک کھاتے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے یہ حکم پرویز مشرف کی سماعت کے موقع پر مسلسل عدم موجودگی کے باعث دیا۔

جسٹس میاں خیل کا کہنا تھا کہ ملزم کے رویے کو دیکھتے ہوئے عدالت کے پاس کوئی اور چارہ نہیں لہذا یہ حکم دیا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کی تمام جائیداد کو ضبط اور بینک کھاتوں کو منجمد کیا جائے۔

پرویز مشرف پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے خلاف آئین کی شق چھ کے تحت آئین شکنی کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

سابق صدر بیرون ملک سفر پر لگائی گئی قدغن کے خلاف رواں سال مارچ میں سپریم کورٹ کی طرف سے اپنے حق میں آنے والے فیصلے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے جس کی وجہ ان کے طبی مسائل اور علاج بتائی گئی تھی۔

پرویز مشرف کے وکلا کی ٹیم میں شامل فیصل چودھری نے منگل کو ہونے والی سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس حکم کے خلاف وہ اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر نے 2008ء میں اپنی تمام جائیداد اپنے اہل خانہ کو تحفتاً دے دی تھی لہذا قانوناً یہ ضبط نہیں کی جا سکتی۔

"اس میں میاں بیوی کا مشترکہ اکاؤنٹ ہو سکتا، ایسے اکاؤنٹس کو سیل نہیں کیا جا سکتا جس میں شریک مالکان ہوں اسی طرح پلاٹ اور دیگر جائیداد انھوں (پرویز مشرف) نے 2008ء میں ہی اہل خانہ کو تحفتاً دے دی تھی۔"

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے خصوصی عدالت کو بھی اس بابت بتایا تھا جس پر عدالت نے انھیں اپنے اعتراضات تحریری طور پر جمع کروانے کا کہا۔

"اب یہ (خصوصی عدالت کی سماعت) غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئی تو بینچ بھی دستیاب نہیں ہو گا تو ہوسکتا ہے ہم اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں جائیں۔"

خصوصی عدالت نے ملزم کا بیان وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی تجویز بھی مسترد کر دی اور کہا کہ مقدمے کی سماعت اب اس وقت ہو گی جب ملزم کو گرفتار کر کے پیش کیا جائے یا پھر وہ خود ہی عدالت میں پیش ہو جائیں۔

پرویز مشرف نے 1999ء میں منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تھا اور اگست 2008ء میں انھوں نے بطور صدر مملکت اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اگلے ہی سال وہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کر کے بیرون ملک چلے گئے جہاں سے وہ 2013ء میں عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان لوٹے تھے۔

2014ء میں خصوصی عدالت ان پر آئین شکنی کی فرد جرم عائد کر چکی ہے لیکن ملزم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ فرد واحد کا نہیں بلکہ اس وقت کے متعلقہ انتظامی عہدیداروں کی مشاورت سے کیا گیا تھا۔

خصوصی عدالت پہلے ہی سابق صدر کو اشتہاری ملزم قرار دے چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG