پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف منگل کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں اوگرا اسکینڈل کیس کی سماعت ہوئی۔
اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) میں بدعنوانی اور اس ادارے کے سربراہ کی قوائد و ضوابط کے مبینہ منافی تقرری کے مقدمات کی سماعت کی۔
اس موقع پر دونوں سابق وزرائے اعظم کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے ان کے خلاف دائر ریفرنسز کی نقول بھی فراہم کی گئیں۔
یوسف رضا گیلانی نے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا اور سماعت پانچ مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔
عدالت کے باہر یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی عدالتوں کو احترام کرتی ہے اور ان کے رہنما پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر الزام ہے کہ انھوں نے اوگرا کے چیئرمین کی تقرری کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی کا سربراہ اس وقت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کو مقرر کیا تھا۔
نیب کے ریفرنس کے مطابق نہ تو راجہ پرویز اشرف متعلقہ وزیر تھے اور نہ ہی انھیں اوگرا کے بارے میں کوئی معلومات تھیں۔
مزید برآں وزیراعظم کے دفتر نے 16 جنوری 2009ء کو کابینہ ڈویژن کی طرف سے بھیجے گئے اس نوٹ پر کوئی فوری اعتراض نہیں کیا گیا جس میں چیئرمین کے عہدے کے لیے توقیر صادق سمیت پانچ ایسے نام شامل کیے گئے تھے جو اس منصب کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ سابق وزیراعظم گیلانی نے نہ تو چیئرمین اوگرا کی تقرری سے قبل ہی امیدواروں کی قابلیت کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی حکم دیا اور نہ ہی توقیر صادق کو چیئرمین مقرر کیے جانے کے بعد اس بابت کوئی اقدام کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ ’’ اوگرا کے چیئرمین کے تقرر کے بعد سابق وزیراعظم نے انھیں سی این جی اسٹیشنز کی تنصیب/منتقلی کے لیے سند عدم اعتراض (این او سی) جاری کرنے کی ہدایت کی، حالانکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی طرف سے اس پر پابندی عائد کی جاچکی تھی۔‘‘
نیب کے ریفرنس میں راجہ پرویز اشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے بحیثیت چیئرمین سلیکشن کمیٹی پٹرولیم کے شعبے سے کا وسیع تجربہ رکھنے والے متعدد قابل امیدواروں کی بجائے توقیر صادق کو ترجیح دی۔
نیب نے توقیر صادق پر یہ بھی الزام عائد کر رکھا ہے کہ انھوں نے اس عہدے کے لیے قانون کی اعلیٰ تعلیم کی غیر مصدقہ اور ناقابل قبول سند استعمال کی۔
اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) میں بدعنوانی اور اس ادارے کے سربراہ کی قوائد و ضوابط کے مبینہ منافی تقرری کے مقدمات کی سماعت کی۔
اس موقع پر دونوں سابق وزرائے اعظم کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے ان کے خلاف دائر ریفرنسز کی نقول بھی فراہم کی گئیں۔
یوسف رضا گیلانی نے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا اور سماعت پانچ مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔
عدالت کے باہر یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی عدالتوں کو احترام کرتی ہے اور ان کے رہنما پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر الزام ہے کہ انھوں نے اوگرا کے چیئرمین کی تقرری کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی کا سربراہ اس وقت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کو مقرر کیا تھا۔
نیب کے ریفرنس کے مطابق نہ تو راجہ پرویز اشرف متعلقہ وزیر تھے اور نہ ہی انھیں اوگرا کے بارے میں کوئی معلومات تھیں۔
مزید برآں وزیراعظم کے دفتر نے 16 جنوری 2009ء کو کابینہ ڈویژن کی طرف سے بھیجے گئے اس نوٹ پر کوئی فوری اعتراض نہیں کیا گیا جس میں چیئرمین کے عہدے کے لیے توقیر صادق سمیت پانچ ایسے نام شامل کیے گئے تھے جو اس منصب کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ سابق وزیراعظم گیلانی نے نہ تو چیئرمین اوگرا کی تقرری سے قبل ہی امیدواروں کی قابلیت کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی حکم دیا اور نہ ہی توقیر صادق کو چیئرمین مقرر کیے جانے کے بعد اس بابت کوئی اقدام کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ ’’ اوگرا کے چیئرمین کے تقرر کے بعد سابق وزیراعظم نے انھیں سی این جی اسٹیشنز کی تنصیب/منتقلی کے لیے سند عدم اعتراض (این او سی) جاری کرنے کی ہدایت کی، حالانکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی طرف سے اس پر پابندی عائد کی جاچکی تھی۔‘‘
نیب کے ریفرنس میں راجہ پرویز اشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے بحیثیت چیئرمین سلیکشن کمیٹی پٹرولیم کے شعبے سے کا وسیع تجربہ رکھنے والے متعدد قابل امیدواروں کی بجائے توقیر صادق کو ترجیح دی۔
نیب نے توقیر صادق پر یہ بھی الزام عائد کر رکھا ہے کہ انھوں نے اس عہدے کے لیے قانون کی اعلیٰ تعلیم کی غیر مصدقہ اور ناقابل قبول سند استعمال کی۔