پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت کو مدعو کرنے پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔
وزیرِ خارجہ نے یہ اعلان پاک بھارت کشیدگی کے معاملے پر جاری پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں جمعے کو پالیسی بیان دیتے ہوئے کیا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ بھارت نہ تو او آئی سی کا رکن ہے اور نہ ہی مبصر اور اس لیے ان کے بقول اس کی وزیرِ خارجہ کو اسلامی ملکوں کی تنظیم کے کسی اجلاس میں شرکت کی دعوت دینا مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جگہ وزارتِ خارجہ کے افسران اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا 46 واں اجلاس یکم اور دو مارچ کو ابوظہبی میں ہو رہا ہے جس میں بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج بھی شریک ہیں۔
سشما سوراج کو اجلاس میں شرکت کی دعوت اجلاس کے میزبان ملک متحدہ عرب امارات نے دی ہے جس کے بھارت سے قریبی تعلقات ہیں۔
جمعے کو پارلیمان سے اپنے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے ایوان کو بتایا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارت کے وزیرِ خارجہ سے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ان سے بھارت کی وزیرِ خارجہ کو شرکت کی دعوت واپس لینے کی درخواست کی تھی۔
شاہ محمود قریشی کے بقول انہوں نے واضح کردیا تھا کہ بصورتِ دیگر ان کے لیے دو روزہ وزارتی اجلاس میں شرکت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول متحدہ عرب امارات کا مؤقف ہے کہ بھارتی وزیرِ خارجہ کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت اس وقت دی گئی تھی جب پلوامہ کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انہوں نے اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ پارلیمان کی خواہش پر کیا ہے جس نے ان کے بقول بھارت کو دعوت دینے پر بطور احتجاج حکومت سے ابوظہبی اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اجلاس سے خطاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ اس کے حق میں نہیں کہ وزیرِ خارجہ او آئی سی کے اجلاس کا بائیکاٹ کریں لیکن ان کے بقول وہ پارلیمان کی رائے کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔
زرداری نے کہا کہ اس اجلاس میں شرکت نہ کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے اور "ہمیں اپنے دوستوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔"
تاہم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے افسران اجلاس میں شریک ہوں گے اور اگر بھارت کو مبصر کے طور پر 'او آئی سی' میں شامل کرنے کی کوئی تجویز آئی تو پاکستان اس کی مخالفت کرے گا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کو 'او آئی سی' کے کسی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
بھارت کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج ایسے وقت اس کانفرنس میں شرکت کر رہی ہیں جب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خود کش حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کی طرف سے ایک دوسری کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی مبینہ کارروائیوں کی بعد خطے کی صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔
بھارت میں بعض حلقے 'او آئی سی' کے اجلاس میں بھارت پہلی بار مدعو کرنے کو نئی دہلی کی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس فیصلے کو بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی اہمیت اسلامی دنیا میں تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔
روس کی ثالثی کی پیشکش
جمعے کو پارلیمان سے اپنے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے انہیں ٹیلی فون کرکے پیشکش کی ہے کہ روس پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان روس کی اس پیشکش کا خیرمقدم کرتا ہے اور کشیدگی ختم کرانے کی اس کی کوششوں میں ہر طرح سے تعاون کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت روس کا دیرینہ اتحادی ہے اور اب دیکھنا ہے کہ کیا روس بھارت کو بھی اپنی ثالثی پر آمادہ کرسکے گا یا نہیں۔
شاہ محمود قریشی نے ایوان کو بتایا کہ کئی دیگر ملک بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کے لیے آگے آئے ہیں اور پاکستان ان تمام کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔