پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک بار پھر اس موقف کو دہرایا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئیفوجی حل نہیں ہے بلکہ بات چیت کے ذریعےہی اس معاملے کوحل کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ کے ایک موقر اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل'سے ایک انٹریو میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ طاقت مسئلے کا حل نہیں ہے اور نا ہی ماضی میں اس سے کوئی مسائل حل ہوئے ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بات چیت سے افغانستان کے مسئلہ کا حل ممکن ہے اور اس کے لیے طالبان کو مذاکرات کے عمل میں شامل کرنا ہو گا تاہم اس کے لیے واشنگٹن کو ان ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا جو اس شدت پسند گروپ پر اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں کیونکہ پاکستان کا اثرورسوخ اب بہت کم ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے پاکستان، امریکہ، چین اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی گروپ کو توسیع دے کر ان ملکوں کو شامل کیا جا سکتا ہے جو افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں موثر ہو سکتے ہیں۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور فوج کے سابق بریگیڈئیر سعد محمد نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے عسکری پہلو کسی حد تک ہی معاون ہو سکتا ہے لیکن حتمی حل بات چیت سے ہی سے ممکن ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ جنگ فی الحال تعطل سے دوچار ہے اور میرے خیال میں بات چیت بہت اہم ہے اور بات چیت ہی کے ذریعے اس کا سفارتی حل نکالا جا سکے گا اور یہ ممکن بھی ہے لیکن جیسے وزیر خارجہ (خواجہ آصف) نے کہا ہے کہ اس کے لیے پورے خطے کے ممالک کو اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا لیکن میرے خیال میں یہ اتنا آسان نہیں ہو گا یہ بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔"
سعد محمد نے مزید کہا کہ افغان طالبان حالیہ مہینوں میں عسکری اعتبار سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔"اگر تین چار ہزار مزید امریکی فوجی آتے ہیں اور اس طرح افغان افواج کو مزید امداد دی جائے تو طالبان کے لیے اس لڑائی کو جیتنے کی قابلیت کم ہوتی جائے گی۔ امریکہ یہ دیکھے گا کہ کس طرح انہیں اس سطح پر لایا جائے تاکہ انہیں اپنی مکمل جیت نظر نا آئے اور وہ بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں۔"
پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر امریکی عہدیداروں کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک موثر عسکری کوشش کے بعد سیاسی حل شاید ممکن ہو سکے جس میں افغانستان میں طالبان کے بعض عناصر کو شامل کیا جا سکتا ہے۔