عالمی ادارہ برائے خوراک ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ لگ بھگ آٹھ لاکھ سیلاب زدگان ایسے علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جن سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور یہاں خوراک کی قلت کے باعث متاثرین بھوک کا شکار ہو رہے ہیں۔
دارالحکومت اسلام آباد میں پیر کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں ڈبلیو ایف پی کے عہدے دار مارکس پرائر نے بتایا کہ اس سنگین صورتحال کے تدارک اور ہنگامی امداد کی تیزی سے ترسیل کے لیے 40 مال برداری کے لائق ہیلی کاپٹروں کی فوری ضرورت ہے۔
اس وقت ملک بھر میں تقریباً 80 ہیلی کاپٹر متاثرینِ سیلاب کی مدد کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کا حصہ ہیں جن میں سے بیشتر افواج پاکستان کی ملکیت ہیں جب کہ امریکہ نے بھی 19 ہیلی کاپٹر فراہم کر رکھے ہیں۔
ڈبلیو ایف پی کے مطابق اب تک 16 لاکھ متاثرین کی ایک ماہ کے لیے غذائی ضروریات کا بندوبست کر دیا گیا ہے لیکن اب بھی لاکھوں کی تعداد میں سیلاب زدگان کو خوراک پہنچانا باقی ہے۔
ادارے کے ترجمان امجد جمال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بعض علاقوں میں اشیاء خورونوش کی قلت کے باعث ان کی قیمتوں میں تین گنا تک اضافہ ہو گیا ہے۔
پاکستانی تاریخ کے بد ترین سیلاب سے ناصرف وسیع پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے مطابق اس سے صرف صوبہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں 79 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے اور کم از کم دو لاکھ مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں دس لاکھ سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں اور بے سروسامان افراد کی تعداد 48 لاکھ ہے۔ سیلاب نے مجموعی طور پر دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے جو کل آبادی کا 12 فیصد بنتے ہیں۔
سرکاری عہدے دارسیلاب میں تقریباً 1,600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر رہے ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق جانی نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ نے صاف پانی کی عدم دستیابی اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال کے پیش نظر متاثرین کے میں وبائی امراض پھوٹنے اور ان سے مزید ہلاکتیں ہونے کا انتباہ کر رکھا ہے۔
سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ سندھ سے گزرنے والے سیلابی ریلے سے حکام کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ خطر ہ شہداد کوٹ اور ٹھٹھہ کے اضلاع کو ہے ۔
سندھ میں آفات سے نمٹنے کے لیے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے اعلیٰ عہدیدار خیر محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہدادکوٹ شہر میں ابھی تک سیلابی ریلا داخل نہیں ہوااور شہر کو بچانے کے لیے بنایا گیا 16 کلومیڑ طویل بند بدستور اپنی جگہ پر قائم ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ٹھٹھہ میں مونارکی اور سرجانی دو ایسے مقامات ہیں جو اگر متاثرہوئے تو کئی علاقے زیر آب سکتے ہیں ۔ خیر محمد کا کہنا ہے اس وقت سیلابی ریلے کا سب سے زیادہ بہاؤ کوٹری بیراج پر ہے جس سے ٹھٹھہ اور حیدر آباد کے نشیبی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ٹھٹھہ کے کچے کا 95فیصد علاقہ زیرآب چکا ہے جس سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی ہوئی ہے۔
حکام کے مطابق سندھ وزرات آبپاشی نے سیلابی ریلے سے قبل 19 اضلاع کو متنبہ کیا تھا اور اُن میں 15 اضلاع سیلاب کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ سندھ میں زیادہ متاثرہ ہونے والے اضلاع میں جیکب آباد، کشمور اور شکار پو ر ہیں ۔
خیر محمدنے بتایا کہ سیلا ب سے سندھ میں 36لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ سرکاری خیمہ بستیوں میں ساڑھے سات لاکھ سے زائدافرادمقیم ہیں جن تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اُن کے بقول اسی وجہ سے بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں جن سے نمٹنے کے لیے سرکاری اور اقوام متحدہ کے ادارے پوری طرح چوکس ہیں۔
صوبائی حکام کے مطابق سندھ کے وہ علاقے جہاں تک اب زمین کے راستے رسائی ممکن نہیں وہاں ڈاکٹر بالخصو ص خواتین ڈاکٹروں کی کمی ہے اور ان علاقوں میں اب تک موجود حاملہ خواتین کو طبی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔