پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے ترجمان ارشاد بھٹی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ اضلاع میں نکاسی آب نا ہونے کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں تاہم وفاقی و صوبائی حکومت کے تمام ادارے بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ادویات کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ بعض علاقوں سے ایسی شکایت بھی ملی ہیں جہاں متاثرہ خاندانوں تک کھانے پینے کی اشیاء دیر سے پہنچی ہیں لیکن ارشاد بھٹی کے بقول سرکاری ادارے متاثرین کو خوراک کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ارشار بھٹی کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ایک لاکھ 20 ہزار خواتین حاملہ ہیں جن میں سے 18 ہزار خواتین ایسی ہیں جنہیں دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ’’حاملہ خواتین کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے فوج، صوبائی و ضلعی حکومتوں نے چھوٹے طبی مراکز بنائے ہیں۔‘‘
سندھ میں آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک 342 افراد ہلاک ہو ئے ہیں جن میں 77 بچے اور 95 خواتین شامل ہیں۔ 70 لاکھ سے زائد متاثرین میں سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد حکومت کے قائم کردہ عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی متاثرہ اضلاع میں جاری امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے ہفتہ کو دو روزہ دورے پر سندھ پہنچے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے صوبہ سندھ میں سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ متاثرین کو خوراک، عارضی ٹھکانوں، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولتوں کی اشد ضرورت ہے۔
وزیراعظم گیلانی اور صدر آصف علی زرداری کی طرف سے سیلاب زدگان کے لیے بین الاقوامی برادری سے اپیل کے بعد اب اقوام متحدہ بھی متاثرہ اضلاع میں اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
صوبہ سندھ گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب سے بھی شدید متاثر ہوا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس بدترین سیلاب سے جہاں 1,700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے وہیں ملک کا 20 فیصد رقبہ زیر آب آ گیا تھا۔
آفات سے نمٹنے کے قومی و صوبائی اداروں کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے 10 لاکھ مکانات یا تو مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں یا اُنھیں شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ اب تک 45 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ زیر آب ہے اور 17 لاکھ ایکڑ پر کھڑی نقد آور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔