رسائی کے لنکس

پچاس فٹ کے چہرے بناتا تھا مگر اب۔۔۔


آغا مختار احمد ماضی کی یاد تازہ کرتے ہوئے فلم ہیر رانجھا کا کردار پینٹ کررہے ہیں۔
آغا مختار احمد ماضی کی یاد تازہ کرتے ہوئے فلم ہیر رانجھا کا کردار پینٹ کررہے ہیں۔

ٹین کی چادروں سے بنے جہازی سائز کے اشتہاری بورڈز پر سلطان راہی ، مصطفی قریشی کے دھاڑتے ہوئے چہرے اور انجمن کے رقص کا کوئی زاویہ پینٹ کرنے والے آغا مختار احمد نے کبھی یہ سوچا نہیں تھا کہ ان کی آمدنی کے ساتھ ساتھ ان کا کینوس بھی سکڑ جائے گا۔

لاہور میں واقع رائل پارک پاکستان کی فلمی صنعت میں ایک اہم مقام رکھتا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ اس صنعت سے وابستہ ہنر مندوں اور فنکاروں کی یہاں بھیڑ ہوا کرتی تھی۔ مگر جیسے جیسے فلمی صنعت روبہ زوال ہوئی ویسے ہی اس سے منسلک لوگ فلم کی چکاچوند سے یا تو اندھیروں میں گم ہوگئے یا پھر انداز معاش تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے۔

آغا مختار کا تعلق بھی رائل پارک سے ہے۔” وہ سنہرا دورتھا جی، اتنا کام ہوتا تھا کہ سنبھالا نہیں جاتا تھا، مگر آہستہ آہستہ سب ختم ہوگیا۔“ کہاں تو قدآدم اشتہاری بورڈ اوراب چند فٹ کا کینوس۔”فرق تو بہت ہے لیکن بڑا کام کرنے والے چھوٹا کام بھی کرسکتے ہیں۔ رزق تو کمانا ہے نا، ایک آدمی اچھا خاصا کام کررہا ہے اسے اٹھا دیں کہ جا بھائی تیرا کام ختم ، تو تھوڑا عرصہ لگتا ہے تبدیلی قبول کرنے میں مگر اللہ کا شکر ہے کام چل رہا ہے۔“

پچاس فٹ کے چہرے بناتا تھا مگر اب۔۔۔
پچاس فٹ کے چہرے بناتا تھا مگر اب۔۔۔

آغا مختار نے بتایا کہ پہلے فلمیں بننا کم ہوئیں تو روزگار پراثر پڑا مگر ان کے بقول پینافلیکس آنے کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ ”ایک ہفتے میں چار چار فلمیں لگتی تھیں اور ایک سینما پر بورڈز کی سیٹینگ پرآٹھ دس لگتے تھے، کبھی کبھی دو دو سیٹینگز کرنی پڑتی تھیں۔ اب پوٹریٹ بنا تا ہوں آرڈر پر، لینڈ اسکیپ ، سینریاں وغیرہ بنا کر گزارہ ہورہاہے۔“

1971ء تک کراچی ، لاہور اور ڈھاکا پاکستانی فلمی صنعت کے تین اہم اور بڑے مراکز ہوا کرتے تھے۔دسمبر 1971میں بنگلہ دیش بننے کے بعد فلم انڈسٹری کراچی اور لاہور تک محدودہونے کے باوجودیہاں قومی اور علاقائی زبانوں میں سو ، دو سو فلمیں بنا کرتی تھیں اور ملک بھر کے سینکڑوں سینما گھروں پر ان کی نمائش ہوتی تھی۔ بیسویں صدی کے اختتام تک مختلف وجوہات کی بنا پر یہ صنعت تقریباً ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اوائل تک صرف برائے نام رہ گئی۔ سینما گھر ختم کرکے وہاں اسٹیج ڈرامے شروع کردیے گئے۔ بہت سے سینما گھروں کو گرا کر شاپنگ پلازے اور دیگر تجارتی نوعیت کی عمارتیں بنا دی گئیں۔

پچاس فٹ کے چہرے بناتا تھا مگر اب۔۔۔
پچاس فٹ کے چہرے بناتا تھا مگر اب۔۔۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے یوسف بھی ایک دہائی قبل فلموں کے اشتہاری بورڈ بنایا کرتے تھے مگر اب وہ بھی چھوٹے کینوس اور دیگر ایسے تخلیقی کاموں سے وابستہ ہو کر زندگی کا پہیہ چلانے میں کوشاں ہیں۔

” وہ سب کچھ ہی ختم ہوگیا ۔ سینما کے بکنگ کلرک ، گیٹ کیپر جن کی بڑی چلتی تھی اب کہیں نظر نہیں آتے۔پینا فلیکس آ گیا، ملٹی پلیکس کھل گئے، تو بس جی ہم نے بھی کام چھوڑ دیا۔“ ذرا توقف سے تھوڑاگلو گیر ہوتے ہوئے یوسف نے کہاکہ”چھوڑنا کیا تھا بس کام ختم ہوگیا تو چھوڑنا پڑ گیا۔ دور اچھا تھا ، بڑا بڑا کام ہوتا تھا ، ایک آرٹسٹ دوسرے کے کام کا مقابلہ کرتا تھا۔ تنقید اور بحث بھی ہوتی تھی۔ اب تو بس یہ کچھ شاگرد ہیں یہ سیکھتے ہیں تصویریں بنانا مجھ سے اور اپنا کام چل رہا ہے۔“

یوسف کے ایک شاگرد دکان کے شٹر پر فلمیں تصویر بنا رہے ہیں
یوسف کے ایک شاگرد دکان کے شٹر پر فلمیں تصویر بنا رہے ہیں

یوسف نے کہا کہ ”میں نے پچاس ، پچاس فٹ کا چہرہ بھی پینٹ کیا ہے۔اپنا ہنر ہے جناب، بل بورڈز نہ سہی چھوٹا کینوس ہی سہی۔ “

XS
SM
MD
LG