رسائی کے لنکس

کیا فلم 'باجی' ہالی ووڈ فلم کا چربہ ہے؟


فلم میں اداکارہ میرا نے مرکزی کردار نبھایا ہے۔
فلم میں اداکارہ میرا نے مرکزی کردار نبھایا ہے۔

یہ کہانی ہے ایک ایسی فلمی ہیروئین کی ہے جس کی شہرت کا سورج ڈھل چکا ہے اور وہ ذہنی کرب اور دباؤ کا شکار ہے، ایسے میں ایک ڈائریکٹر اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ پردہ سکرین پر پھر سے جلوہ گر ہو کر دوبارہ عروج حاصل کر سکتی ہے۔

یہ کہانی ہے سنہ 1950 میں بننے والی ہالی ووڈ کی شہرہ آفاق کلاسک فلم ’سن سیٹ بلے وارڈ‘ کی، مگر فلم باجی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟

’میں تو پاکستانی فلم باجی دیکھنے آیا تھا، یقین نہیں آرہا مگر یہ تو بالکل ایک پرانی ہالی ووڈ فلم کی طرز پر بنی ہے۔‘ صداقت نے فلم باجی میں وقفے کے دوران وی او اے کو بتایا۔

پاکستانی فلم باجی کے بارے میں یہ رائے یکسر غلط بھی نہیں کیونکہ فلمی شائقین جو ہالی ووڈ کلاسکس میں دلچسپی رکھتے ہیں سنہ 1958 میں بننے والی ہالی ووڈ فلم ‘سن سیٹ بلے وارڈ‘ اور فلم باجی میں پائے جانے والی مماثلت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہی ڈھلتی عمر کے ہاتھوں پریشان ’نورما ڈیزمنڈ‘ اور ان کا مسیحا سکرین رائٹر’جوو‘ دوسری طرف باجی کی ’شامیرہ‘ جس کا کردار فلم سٹار میرا نے ادا کیا ہے اور ان کو بچانے کے لیے آنے والا ڈائریکٹر ’روحیل خان‘ جس کا کردار عثمان خالد بٹ نے نبھایا ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر ثاقب ملک ہیں جو بالی ووڈ میں بھی کام کر چکے ہیں۔
فلم کے ڈائریکٹر ثاقب ملک ہیں جو بالی ووڈ میں بھی کام کر چکے ہیں۔

’شروع میں لگا کہ فلم شاید کچھ مختلف ہو گی مگر فلم میں سب کچھ اچانک سے ہو گیا، کوئی تسلسل نہیں تھا۔‘ سعدیہ جو کہ اپنی کالج فیلوز کے ساتھ فلم دیکھنے اٗئی تھیں نے فلم پر تبصرہ کرتے ہوے کہا۔

بطور ہدایت کار ثاقب ملک کی یہ پہلی فلم ہے لیکن وہ اس سے قبل انڈین، امریکی فلم ڈائریکٹر میرا نائر کی فلم 'reluctant fundamentalist' میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کر چکے ہیں۔

ایسے میں فلم کے سکرین پلے میں بنیادی نوعیت کے جھول فلم بین کے لیے یقیناً حیران کن ہیں۔ فلم شامیرہ نامی اداکارہ کے گرد گھومتی ہے جو سیٹ پر چوٹ لگ جانے کے بعد ایک سیلون پر کام کرنے والی لڑکی نیہا (آمنہ الیاس) کے پر خلوص رویے سے متاثر ہو کر اسے اپنا پر سنل اسسٹنٹ رکھ لیتی ہیں۔ جس سے ان کے دیرینہ ساتھی فلم فوٹو گرافر چاند کمال(نئر اعجاز) اور دلشاد آپی (نشو بیگم) خفا ہوجاتے ہیں اور چاند کمال ہی آگے چل کر شامیرہ کے بواے فرینڈ رمی(علی کاظمی) کے ساتھ مل کے ان کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔

فلم بینوں کے مطابق سکرین پلے میں جگہ جگہ جھول، اور فاسٹ فارورڈ کی سی صورت اختیار کرتی فلم میں اگر آپ اداکاری سے محضوظ ہونا چاہ رہے ہیں تو صرف عرفان کھوسٹ اور نیئر اعجاز کے کردار ہی ہیں۔

اداکارہ میرا نے فلم میں اپنے روایتی انداز میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
اداکارہ میرا نے فلم میں اپنے روایتی انداز میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔

‘عرفان کھوسٹ کا مختصر سا کردار ہے، مجھے تو بڑے ہی اچھے لگے ہیں‘ نعیمہ نے کہا جو کہ اپنی پوتی کے ساتھ فلم دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔

میرا اپنے روایتی انداز میں مکالمے بولتی دکھائی دیتی ہیں حالانکہ کردار میں جاندار ایکٹنگ کی بہت گنجائش تھی، البتہ ان کے ملبوسات، میک اپ پر کافی محنت کی گئی ہے۔ میرا پردہ سکرین پر خوبصورت بھی نظر آئی ہیں، یہ محض اتفاق ہے یا سوچ سمجھ کر میرا کو اس کرادر میں کاسٹ کیا گیا مگر فلم کا تھیم کسی حد تک میرا کے ذاتی فلمی کریئر کی بھی عکاسی کرتا ہے کیونکہ کہ آجکل وہ بھی کم ہی فلموں میں نظر آتی ہیں۔

آمنہ الیاس کی ایکٹنگ بھی فلمی شائقین کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کی ڈائیلاگ ادائیگی اور چہرے کے تاثرات شاید ہی کسی سین میں یکجا نظر آئے ہوں۔ علی کاظمی کا کرادر منفی ہونے کے باوجود متاثر کن نہیں البتہ ان کی ایکٹنگ معقول ضرور ہے۔

رہی بات فلم کے ہیرو عثمان خالد بٹ کی تو بطور فلم بین آپ کے لیے فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ آپ ان کی کونسی فلم دیکھ رہے ہیں۔ کیوںکہ آواز کے اتار چڑھاؤ میں کوئی فرق ہے نہ ہی چہرے کے تاثرات میں، عثمان ایک خاص انداز میں مکالمے ادا کرتے ہیں جس کا کرادر کی ڈیمانڈ سے مطابقت رکھنا ضروری نہیں۔

ماضی کی مقبول اداکارہ نشو بیگم کا کردار بھی حقیقت سے دور نظر آتا ہے جس میں رائٹر نے رنگ بھرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

فلم میں تھیم کی کاپی کو ہی کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ پاکستان ہی کے کچھ پرانے گانے دوبارہ شامل کیے گئے ہیں۔جس میں ماضی میں ناہید اختر کا گایا ہوا گانا ’یہ آج مجھ کو کیا ہوا‘ اور دوسرا رونا لیلہ کا گایا ہوا ڈونٹ بی سلی‘ شامل ہیں۔

شائقین کا کہنا ہے کہ فلم کی 1958ء میں بننے والی ایک بالی ووڈ فلم سے مماثلت رکھتی ہے۔
شائقین کا کہنا ہے کہ فلم کی 1958ء میں بننے والی ایک بالی ووڈ فلم سے مماثلت رکھتی ہے۔

فلم کے گانوں میں زیب بنگش کا گایا ہوا گیت ’کھلتی کلی‘ اگر متاثر کن نہیں تو اسے برا بھی نہیں کہا جا سکتا۔

فلم 28 جون کو ریلیز ہوئی اور اب تک چھ کروڑ سے زائد کا بزنس کر چکی ہے لیکن لاگت، خوبصورت فلم لوکیشنز اور بہترین عکس بندی کے باوجود فلم کا ان گنت سوالات کے جواب دیے بغیر ختم ہو جانا فلم بینوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔

فلم بین سعدیہ نے وی او اے کو فلم کے اختتام پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے نہیں سمجھ آیا کے روحیل (عثمان خالد) نے یہ سب کیوں کیا، نیہا (آمنہ الیاس) جیل سے کیسے باہر آئی اور فلم سٹار کیسے اور کب بن گئی؟

فلم باجی ایسے فلم بینوں کے ذہن میں ایسے ہی ان گنت سوالات چھوڑ گئی ہے، تاہم شائقین پرامید ہیں کہ ڈائریکٹر ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل میں اچھی فلمیں بنائیں گے۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG