اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 15۔2014 کے لیے تقریباً 44 کھرب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لئے معاشی ترقی کا ہدف 5.1 فیصد رکھا ہے جبکہ مالی خسارے کو مجموعی پیداوار کی نسبت 4.9 فیصد تک لایا جائے گا۔
منگل کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم میں 14 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ دفاعی بجٹ 700 ارب روپے رکھا گیا جو کہ 14۔2013 مالی سال میں 629 ارب روپے تھا۔ آئندہ مالی سال کے لیے افراط زر کی شرح کا ہدف 8 فیصد تک رکھا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وفاقی ملازمین کی پنشنز اور تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مزدوروں کی کم سے کم اجرت کی ’’شرح 10 ہزار سے بڑھا کر 11 ہزار کی جا رہی ہے‘‘َ۔
’’غریبوں کی اصلاح کے لیے ہماری حکومت گہری دلچسپی رکھتی ہے اور گزشتہ سال ہم نے سوشل سیفٹی میں اضافہ کر کے اسے 75 ارب روپے کیا اور اس مالی سال میں ہم اسے 118 ارب روپے کر رہے ہیں جوکہ مالی سال 13۔2012 کے مقابلے میں 200 فیصد زیادہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کی نسبت آئندہ مالی سال کے دوران 53 لاکھ غریب گھرانوں کو نقد امداد فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کم آمدنی والے شہریوں کے گھر بنانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس میں 10 لاکھ روپے تک 20 ہزار قرضے دیے جائیں گے جس میں 40 فیصد گارنٹی کی رقم حکومت ادا کرے گی۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے بجٹ میں 250 ارب روپے مختص کیے اور صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں چھوٹے پیمانے پر بجلی بنانے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے امید کا اظہار کیا کہ آئندہ ماہ تک زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔
’’میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ ہم نے آسمانوں پر کمند ڈال لی ہے لیکن آج کا پاکستان ایک سال پہلے کے پاکستان سے کہیں زیادہ توانا، صحت مند اور روشن ہے۔‘‘
زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے نواز انتظامیہ نے مالی سال 15۔2014 کے لیے کسانوں کو 500 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان سے ٹیکس نیٹ اور مجموعی پیداوار کی نسبت ٹیکس کی شرح میں اضافے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، وزیر خزانہ نے ایسا کرنے کا اعلان کیا تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجموعی محصولات میں بلاواسطہ ٹیکس کے حصہ کو بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک شفاف طریقے کے ذریعے نجکاری کی جائے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ان اداروں کے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
منگل کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم میں 14 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ دفاعی بجٹ 700 ارب روپے رکھا گیا جو کہ 14۔2013 مالی سال میں 629 ارب روپے تھا۔ آئندہ مالی سال کے لیے افراط زر کی شرح کا ہدف 8 فیصد تک رکھا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وفاقی ملازمین کی پنشنز اور تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مزدوروں کی کم سے کم اجرت کی ’’شرح 10 ہزار سے بڑھا کر 11 ہزار کی جا رہی ہے‘‘َ۔
’’غریبوں کی اصلاح کے لیے ہماری حکومت گہری دلچسپی رکھتی ہے اور گزشتہ سال ہم نے سوشل سیفٹی میں اضافہ کر کے اسے 75 ارب روپے کیا اور اس مالی سال میں ہم اسے 118 ارب روپے کر رہے ہیں جوکہ مالی سال 13۔2012 کے مقابلے میں 200 فیصد زیادہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کی نسبت آئندہ مالی سال کے دوران 53 لاکھ غریب گھرانوں کو نقد امداد فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کم آمدنی والے شہریوں کے گھر بنانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس میں 10 لاکھ روپے تک 20 ہزار قرضے دیے جائیں گے جس میں 40 فیصد گارنٹی کی رقم حکومت ادا کرے گی۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے بجٹ میں 250 ارب روپے مختص کیے اور صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں چھوٹے پیمانے پر بجلی بنانے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے امید کا اظہار کیا کہ آئندہ ماہ تک زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔
’’میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ ہم نے آسمانوں پر کمند ڈال لی ہے لیکن آج کا پاکستان ایک سال پہلے کے پاکستان سے کہیں زیادہ توانا، صحت مند اور روشن ہے۔‘‘
زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے نواز انتظامیہ نے مالی سال 15۔2014 کے لیے کسانوں کو 500 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان سے ٹیکس نیٹ اور مجموعی پیداوار کی نسبت ٹیکس کی شرح میں اضافے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، وزیر خزانہ نے ایسا کرنے کا اعلان کیا تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجموعی محصولات میں بلاواسطہ ٹیکس کے حصہ کو بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک شفاف طریقے کے ذریعے نجکاری کی جائے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ان اداروں کے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔