پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا جو دہشت گردوں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے میں ناکام ہیں تو اُن کے بقول اس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔
پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس شروع ہو چکا ہے جس میں پاکستان کا نام ’واچ لسٹ‘ میں شامل کرنے سے متعلق امریکہ اور برطانیہ کی پیش کردہ تجویز بھی زیرِ غور آئے گی۔
واضح رہے کہ جرمنی اور فرانس بھی اس تجویز کی تائید کر چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے بعد حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُن کے کئی دفاتر کو سرکاری تحویل میں دے دیا تھا۔\
عام تاثر یہ ہے کہ ان دونوں تنظیموں کے خلاف کارروائی مذکورہ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر کی گئی تھی۔
وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف اقدامات کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کیے جارہے بلکہ یہ خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تنظیموں کے خلاف اقدامات انسدادِ دہشت گردی کے قومی لائحۂ عمل کے تحت کیے جارہے ہیں اور اس کو کسی بین الاقوامی ایجنڈے سے جوڑنا، اس کو سبوتاژ کرنے اور انتہا پسند قوتوں کو بہانہ دینے کے مترادف ہے کہ اُن کے خلاف کارروائی امریکہ کے دباؤ پر کی جا رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کا نام ’واچ لسٹ‘ میں شامل کرنے سے ملک کے لیے معاشی مشکلات بڑھیں گی جن کا بالآخر اثر دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بھی پڑے گا۔
"اگر ایسے اقدام کے ذریعے پاکستان کو کوئی اقتصادی نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اس کا اثر ہمارے بجٹ پر پڑے گا۔ ہم اپنے بجٹ ہی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم اپنے بجٹ سے ہی اپنی سکیورٹی فورسز کو وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ تو اگر ہمارے بجٹ پر، ہمارے وسائل پر کسی قسم کی زک ڈالی جائے گی تو اس سے ہماری دہشت گردی کے خلاف صلاحیت متاثر ہو گی۔ تو کیا یہ ممالک دہشت گردوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مدد کرنا چاہتے ہیں؟"
وزیرِ داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت سفارت کاری کے ذریعے ایسے ممکنہ اقدامات کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
"میں سمجھتا ہوں کہ اس اقدام کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کو روکنے کا طریقہ یہی ہے کہ ان ممالک کو زیادہ سے زیادہ سفارتی سطح پر انگیج کیا جائے جو ہم کر رہے ہیں۔ امریکہ نے بھی اس کے لیے اپنی سفارت کاری کی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے اُمید ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کی جو قربانیاں ہیں اور پاکستان کی جو کوششیں ہیں ان کا ضرور اعتراف کرے گی اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے۔"
اس سے قبل وزیرِ مملکت برائے خزانہ رانا افضل کے علاوہ پاکستان میں کاروباری حلقے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے ’واچ لسٹ‘ میں شامل کرنے سے پاکستان کے لیے اقتصادی مشکلات بڑھ جائیں گی اور ملک میں سرمایہ کاری بھی متاثر ہو گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 2012ء میں بھی پاکستان کو ’واچ لسٹ‘ شامل کیا گیا تھا لیکن انسدادِ دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے خلاف کارروائی کے بعد پاکستان کا نام 2015ء میں اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔