فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا چھ روز اجلاس اتوار کو پیرس میں شروع ہوا جس میں دیگر امور کے علاوہ اس تحریک کا بھی جائزہ لیا جائے گا جس میں پاکستان کو ان ملکوں کی فہرستوں میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جومبینہ طور پر دہشت گردی کے لیے فنڈز کی فراہمی کو روکنے میں ناکام رہے۔
واضح رہے کہ یہ تجویز امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور بعد ازاں جرمنی اور فرانس نے بھی اس کی تائید کر دی۔
حالیہ سالوں میں بعض ایسی شدت پسند تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نا کرنے کی وجہ سے پاکستان کو تنقید کا سامنا رہا ہے جن پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ تعزیرات عائد کر چکے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس پاکستان کو دہشت گردی کی فنانسنک سے متعلق واچ لسٹ میں شامل کر دیتا ہے تو اس کے پاکستان کے تشخص اور معیشت پر شدید اثرات ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی تاجر برادری کے ایک نمائندے اور معروف کاروباری شخصیت زبیر موتی والا نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایسے کسی بھی اقدام سے پاکستان کی برآمدات پر بھی مفنی اثر پڑ سکتا ہے۔
" اس کی وجہ سے پاکستان کو اقتصادی مشکلات پیش ہو سکتی ہیں اور جو ملک یہ فیصلہ کریں گے یہ 35 ملکوں پر مشتمل تنظیم ہے اور ان میں زیادہ وہ ملک ہیں جو ہمارے بڑے تجارتی شراکت دار اور ہماری مارکیٹ ہیں ان میں یورپی یونین کے ممالک اور امریکہ بھی شامل ہے اور امریکہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اس کی وجہ سے پاکستان کو براہ راست نقصان ہو سکتا ہے۔ "
دوسری طرف پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو اس واچ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔
ہفتہ کو لاہور میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تحریک مغربی ملکوں کی طرف سے بعض مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ وہ تمام شدت پسند تنظمیوں کی سرگرمیوں کی موثر نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے اور حال ہی میں پاکستان نے دہشت گردی سے متعلق قانون میں ترمیم کی ہے جس کے تحت اب ان تنظیموں اور عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکے گی جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پہلے ہی تعزیرات عائد کر چکی ہے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ان تنظیموں کے خلاف ایسی کارروائیاں جاری رکھنا ہوں گی جو نام بدل کر دوبارہ سرگرم ہونے کی کوشش کر سکتی ہے۔
سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اپنے طور پر کوشش تو کرتا آرہا ہے لیکن دہشت گردی کےلیے فنڈز اور وسائل کی نگرانی کے لیے ملک کے مالیاتی ادورں میں کئی اصلاحات وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔