اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی سمندری حدود نے پاکستان کی سمندری حدود میں اضافے کی منظوری دیدی ہے، جس کے بعد پچاس ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ پاکستان کی سمندری حدود میں شامل ہوگیا ہے۔
جمعہ کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے اس کمیشن کے پنتیس ویں خصوصی اجلاس میں منظوری کے بعد باضابطہ نوٹیفکشن جاری کردئے گئے ہیں۔
یہ بات وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ڈیفنس پروڈکشن رانا تنویر حسین نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور پاکستان نیوی کے وائس چیف اف اسٹاف خان ہاشم بن صدیقی کے ہمراہ نیویارک میں مشترکہ پریس کانفرنس میں بتائی۔
اس بات کا اعلان کرتے ہوئے، اُنھوں نے بتایا کہ دنیا بھر کے 67 ممالک نے اپنی سمندری حدود میں اضافے کی درخواستیں دیں تھیں، جس میں پاکستان کا نمبر 28واں تھا۔
لیکن، اس کی بہترین سفارتکاری کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن نے خطے میں سب سے پہلے پاکستان کی درخواست کی منظوری دی، جس کے ساتھ ہی پاکستان کی سمندری حدود میں پچاس ہزار مربع کلومیٹر رقبے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
اب ساحل سے 200 کلوناٹ کی بجائے 350 کلوناٹ تک کا سمندر پاکستان کی سرحد میں شامل ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی دفاعی حثیت بھی مستحکم ہوگی۔
رانا تنویر نے بتایا کہ 2005 میں قائم ہونے والے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی سمندری حدود نے پاکستان کے سمندری حدود کا 2009 میں سروے کرایا تھا جس پر پاکستان نے 50 کروڑ ڈالر خرچ کئے تھے۔
انھوں نے ایک سوال پر بتایا کہ سمندری حدود میں اضافے سے معدنی وسائل سے مالامال ایک بڑا رقبہ پاکستان کو مل گیا ہے، جہاں تین اور گیس کے علاوہ دیگر معدنیات ملنے کی توقع ہے جو کے مثبت اثرات پاکستانی معشیت پر پڑیں گے۔
ایک سوال پر وزیر دفاعی پیدوار کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے لئے ڈیفنس پروڈکشن نے سات کروڑ ڈالر میں جو بکتر بند بناکر دئے تھے وہی سندھ حکومت نے سربیا سے سترہ کروڑ ڈالر میں خرید لئے ہیں۔
اس موقع پر موجود پاکستان کی مسقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا پاکستان کی اس کامیابی کو اس کی بہترین سفارتکاری کا ساشاخسانہ قرار دیا۔