پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ’پی آئی اے‘ کا طیارہ اغوا کرنے کے جرم میں ملوث تین ہائی جیکروں کو جمعرات کی صبح پھانسی دے دی گئی۔جب کہ ملک کی مختلف جیلوں میں جمعرات ہی کو پانچ دیگر مجرموں کی سزائے موت پر بھی عمل درآمد کیا گیا۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین افراد نے 17 سال قبل 1998ء میں تربت سے کراچی جانے والی قومی فضائی کمپنی کی ایک پرواز کو ہائی جیک کیا تھا۔
طیارے کے اغواء میں ملوث شاہسوار اور صابر رند نامی مجرموں کو حیدرآباد جب کہ شبیر رند کو کراچی جیل میں پھانسی دی گئی۔
حکام کے مطابق ان تینوں کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تھا اور یہ تینوں مبینہ طور پر بھارتی ایجنٹ تھے۔
یہ مجرم تربت سے براستہ گوادر کراچی جانے والی پرواز میں گودار سے سوار ہوئے اور دوران پرواز انھوں نے پائلٹ کو طیارہ بھارت لے جانے کا حکم دیا۔
پی آئی اے کے اس فوکر طیارے پر کل 38 افراد سوار تھے اور پائلٹ نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہائی جیکروں کو یہ کہہ کر طیارہ حیدرآباد ایئرپورٹ پر اتار لیا کہ اس میں ایندھن ختم رہا ہے اور جہاز کو بھارتی ریاست گجرات میں اتارا گیا ہے۔
رات گئے پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے کارروائی کرتے ہوئے ان ہائی جیکروں کو طیارے سے گرفتار کر لیا تھا۔
ان کی رحم کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد جمعرات کو ان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔
قتل کے مقدمات میں پانچ دیگر مجرموں کو صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی جیلوں میں پھانسی دی گئی۔
رواں ہفتے ملک کی مختلف جیلوں میں 20 مجرموں کی پھانسی پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مہلک حملے میں 134 طالب علموں سمیت 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے موت کی سزا پر عمل درآمد پر 2008ء سے عائد عارضی پابندی ختم کر دی تھی۔
جس کے بعد سے اب تک ملک کی مختلف جیلوں میں لگ بھگ 137 مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
پاکستان کی مختلف جیلوں میں آٹھ ہزار قیدی ایسے ہیں جن کی سزائے موت پر عمل درآمد ہونا ہے۔
مجرموں کو پھانسی دینے کے سلسلے کے آغاز کے بعد انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔