خطہ جنوبی ایشیاء کا انتہائی اہم ملک پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی، قدرتی گیس، پٹرولیم ، کوئلے اور لکڑی پر انحصار کرتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے اور توانائی کی فراہمی کےبنیادی ڈھانچے کی موجودگی کے باوجود اس شعبے میں پاکستان کو درپیش مسائل کی وجہ گذشتہ چھ دہائیوں میں حکومتوں کی جانب سے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔
اس وقت پاکستان کو درپیش ایک اہم مسئلہ بجلی کی طلب و رسد میں توازن نہ ہونا ہے۔ اریم زیم گوچین واشنگٹن میں توانائی کے مسائل پر کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو تقریبا چھ ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا اور نجی اور عوامی پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ۔
ان کےخیال میں دوسرا حل پاکستان میں کم بجلی سے چلنے والے الیکٹرانک آلات کی فراہمی پر توجہ دینا ہے ۔
ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں پانی اور نیوکلیئر ذرائع سے بجلی کی پیداوار تقریبا ت13ا ہزار میگا واٹ جبکہ بجلی کی مجموعی طلب تقریبا19 ہزار میگا واٹ ہے ۔ پاکستان کی40فی صد آبادی کو بجلی میسر نہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات اگلے 20 برسوں میں 350 فیصد بڑھ جائیں گی ۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے اور پانی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ماہرین کے مطابق پاکستان میں نئے ڈیمز کی تعمیر اور بجلی کی تقسیم کے نظام میں موجودہ خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے پاکستان کا50 فیصد صنعتی شعبہ تباہ ہو چکا ہے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری دیگر مسائل کی وجہ بن رہی ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 79 فی صد تیل اور گیس سے پورا کرتا ہے۔ اور چونکہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات کا محض20 فیصد ہی مقامی طور پر حاصل کر پاتا ہے اس لیے پٹرولیم مصنوعات کے سلسلے میں پاکستان کا زیادہ دارومدار دوسرے ممالک پر ہے۔ جس سےپاکستانی معیشت پر شدید دباؤ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام اور صنعتی شعبہ بھی اس سے براہ ِ راست متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائرکی موجودگی توانائی کے شعبے پر موجودہ دباؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔لیکن بلوچستان میں گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑائے جانے والے متعدد واقعات نے قدرتی گیس کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے۔
واشنگٹن کے وڈرو ولسن سنٹر سے منسلک مائیکل کوگل مین کے نزدیک توانائی کے مسائل حل کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کو قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔
پاکستان میں کوئلے کے موجودہ اپنے ذخائرکے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ پاکستانی حکومت 2018ءتک توانائی کے لیے کوئلے پر انحصار سات سے 18 فی صد تک بڑھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ لیکن ایرم زیم گوچین کا کہنا ہے کہ کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کرنا پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔
پچھلے پانچ برسوں میں دو بڑی قدرتی آفات کے نتیجے میں بھی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ہے جبکہ دہشت گردی اورملک کی مجموعی غیر یقینی صورتحال بھی توانائی کے شعبے میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔
توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ توانائی کے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔ جن پر قابو پانے کے لئے فوری اور طویل المدتی منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے کیونکہ اب یہ پاکستان کے سیاسی استحکام کا معاملہ بھی بنتا جا رہا ہے ۔