پاکستان تحریک انصاف کے بعد الیکشن کمیشن کے سابق سینئیر عہدیدار کے اس انکشاف پر کہ 2013 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کمیشن کے اراکین کا کہنا تھا کہ ’’قوم کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ کن مشکل حالات میں گزشتہ انتخابات کا انعقاد کیا گیا‘‘ اور ان کے بقول منصفانہ اور شفاف انداز میں الیکشن کے لیے اصلاحات بھی کی گئیں۔
کمیشن سے جاری بیان کے مطابق شرکا نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان کے دھاندلی سے متعلق الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان میں کوئی صداقت نہیں۔
تاہم مبصرین اور سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ کسی باقاعدہ تحقیقات کے بغیر الیکشن کمیشن کے اراکین کی طرف سے الزامات کو مسترد کرنا درست نہیں۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو مدثر رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تعجب کا اظہار کیا کہ انتخابات لڑنے والی جماعتوں کے غیر قانونی طور پر بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے الزامات کی تحقیقات کروانے کی بجائے کمیشن نے اپنے صوبائی دفتر کے رکن کے بیان کو اہمیت دی ہے۔
’’جن جماعتوں نے الیکشن لڑا ہے اور ایک کروڑ سے زائد ووٹ لیے ہیں وہ ان کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھارہی ہیں اور دوسری جماعتیں بھی ان کی حمایت کرتی ہے۔ سب سے بڑا قصور ہے کہ انہوں نے ان کی شکایات پر کوئی کارروائی ہی نہیں کی ہے۔‘‘
الیکشن کمشین کے اراکین کا اجلاس میں کہنا تھا کہ ججوں کی بحیثیت ریٹرنگ افسران کی تقرری تمام سیاسی جماعتوں کی درخواست پر کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف غیر ملکی مبصرین نے اپنی رپورٹس میں گزشتہ عام انتخابات کو آزادانہ، شفاف، مصدقہ اور کامیاب قرار دیا تھا۔
مدثر رضوی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’چار مبصر تنظیمیں جن کے وفد بھی چھوٹے چھوٹے تھے کے کہنے پر ہم کہہ رہے ہیں کہ انتخابات ٹھیک ہوئے ہیں۔ باقی کوئی جو بھی کہتا ہے ہمیں پرواہ ہی نہیں۔ یورپی یونین والوں نے 21 مئی کو ایک بیان دیا کہ وہ پولنگ اسکیم فراہم کرے جس کا نفاذ انتخاب کے دن ہوا، مطلب تبدیلی کی گئی تھی۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر غیر ملکی مبصرین کی رپوٹس کا صحیح انداز میں جائزہ لیا جائے تو ان میں ’’سنگین بے قاعدگیوں‘‘ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز سعید غنی کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ایسے بیانات معاملات کو مزید پیچیدہ اور خراب کر سکتے ہیں۔
’’اگر ان کی بات مان لی جائے تو کمیشن نے درجنوں شکایات سنیں اور ناصرف لوگوں کی رکنیت منسوخ کی بلکہ دوبارہ انتخابات بھی کروائے۔ تو پھر ایسا کیوں کیا گیا۔ میرے خیال میں ممبران دباؤ میں ہیں اور صرف اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے اپنا دفاع کررہے ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں گزشتہ دو ہفتوں سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن دھرنا دیتے ہوئے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے بعد حکومت کے مجوزہ عدالتی کمیشن کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
نواز انتظامیہ میں شامل اعلیٰ عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے۔