اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے منگل کو انتخابی ٹربیونل کے اس فیصلے کو معطل کر دیا جس کے تحت اہلسنت و الجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کا بطور رکن قومی اسمبلی نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ محمد اکرم کی درخواست پر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن ٹربیونل کی طرف سے 18 اپریل کو اس بارے میں جاری نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کو عارضی طور پر روک دیا۔
الیکشن ٹربیونل نے کاغذات نامزدگی میں بعض ’’غلط‘‘ معلومات دینے پر صوبہ پنجاب سے قومی اسمبلی کے حقلے 89 میں شیخ اکرم کی انتخابات میں کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مولانا لدھیانوی کو انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے پر کامیاب قرار دیا۔
شیخ اکرم کے وکیل مخدوم علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کے سامنے ان کے موکل کے خلاف تمام الزامات کے جواب میں شواہد پیش کیے گئے مگر اُنھیں تسلیم نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے ماضی کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹربیونل نے مولانا لدھیانوی کے حق میں فیصلہ دیا اور اس کی وجوہات تک نہیں بتائی گئیں۔
’’12 ایسے فیصلے ہیں جن میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی فاتح امیدوار کی نااہلی کی صورت میں دوبارہ انتخابات کروائے جائیں اور دوسرے نمر پر آنے والے کو اُسی صورت میں فاتح قرار دیا جا سکتا ہے، جب تک کہ نا اہل امیدوار کی بدی کے بارے میں عام شہرت ہو۔‘‘
مخدوم علی کا کہنا تھا کہ عدالت نے مولانا لدھیانوی سمیت اس حلقے کے دیگر امیدواروں کو آئندہ سماعت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے جو کہ تین ماہ کے بعد ہو گی۔
مولانا لدھیانوی فرقہ واریت میں ملوث تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان سے وابستہ رہ چکے ہیں اور اس تنظیم پر 2002 میں پابندی لگنے کے بعد انہوں نے اہلسنت و الجماعت کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اُن کا سپاہ صحابہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا لدھیانوی نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس عدالتی کارروائی کا ان کی سیاسی و مذہبی وابستگی سے کوئی تعلق ہے۔
’’شیخ اکرم کا عدالت سے رجوع کرنا ان کا حق ہے۔ انھوں نے انتخابات کے وقت کاغذات جمع کرواتے وقت جھوٹ بولا تھا جس کی وجہ سے انہیں نااہل قرار دیا گیا۔‘‘
مخدوم علی خان کے مطابق ان کے موکل کے خلاف الزامات میں تائید کنندہ کے کاغذات نامزدگی میں غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ نا ہونے کا دعویٰ تھا۔
’’تائید کنندہ نے ٹربیونل میں پیش ہو کر کہا کہ یہ غلطی سے ہوا، نا کہ دانستہ طور پر اور دوسرا ان کے خلاف مقدمہ ایک کار کے حادثے کا تھا تو اس پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ محمد اکرم کی درخواست پر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن ٹربیونل کی طرف سے 18 اپریل کو اس بارے میں جاری نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کو عارضی طور پر روک دیا۔
الیکشن ٹربیونل نے کاغذات نامزدگی میں بعض ’’غلط‘‘ معلومات دینے پر صوبہ پنجاب سے قومی اسمبلی کے حقلے 89 میں شیخ اکرم کی انتخابات میں کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مولانا لدھیانوی کو انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے پر کامیاب قرار دیا۔
شیخ اکرم کے وکیل مخدوم علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کے سامنے ان کے موکل کے خلاف تمام الزامات کے جواب میں شواہد پیش کیے گئے مگر اُنھیں تسلیم نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے ماضی کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹربیونل نے مولانا لدھیانوی کے حق میں فیصلہ دیا اور اس کی وجوہات تک نہیں بتائی گئیں۔
’’12 ایسے فیصلے ہیں جن میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی فاتح امیدوار کی نااہلی کی صورت میں دوبارہ انتخابات کروائے جائیں اور دوسرے نمر پر آنے والے کو اُسی صورت میں فاتح قرار دیا جا سکتا ہے، جب تک کہ نا اہل امیدوار کی بدی کے بارے میں عام شہرت ہو۔‘‘
مخدوم علی کا کہنا تھا کہ عدالت نے مولانا لدھیانوی سمیت اس حلقے کے دیگر امیدواروں کو آئندہ سماعت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے جو کہ تین ماہ کے بعد ہو گی۔
مولانا لدھیانوی فرقہ واریت میں ملوث تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان سے وابستہ رہ چکے ہیں اور اس تنظیم پر 2002 میں پابندی لگنے کے بعد انہوں نے اہلسنت و الجماعت کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اُن کا سپاہ صحابہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا لدھیانوی نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس عدالتی کارروائی کا ان کی سیاسی و مذہبی وابستگی سے کوئی تعلق ہے۔
’’شیخ اکرم کا عدالت سے رجوع کرنا ان کا حق ہے۔ انھوں نے انتخابات کے وقت کاغذات جمع کرواتے وقت جھوٹ بولا تھا جس کی وجہ سے انہیں نااہل قرار دیا گیا۔‘‘
مخدوم علی خان کے مطابق ان کے موکل کے خلاف الزامات میں تائید کنندہ کے کاغذات نامزدگی میں غلط شناختی کارڈ نمبر کا اندارج اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ نا ہونے کا دعویٰ تھا۔
’’تائید کنندہ نے ٹربیونل میں پیش ہو کر کہا کہ یہ غلطی سے ہوا، نا کہ دانستہ طور پر اور دوسرا ان کے خلاف مقدمہ ایک کار کے حادثے کا تھا تو اس پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘