اس وقت پاکستان بھر میں ساٹھ لاکھ بچے ایسے ہیں جو تعلیم سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ اُنھیں معمولی یا درمیانے درجے کی معذوری کا سامنا ہے جس کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں ان کا داخلہ دشوارہے جب کہ خصوصی تعلیمی مراکز کے پاس اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو سنبھالے کی استعطاعت نہیں۔
وزارت تعلیم کے جائزے کے مطابق ان بچوں کو سننے، دیکھنے اور چلنے میں دشواری جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ لیکن صحت مند انسانوں کی طرح تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی صلاحیت کے باوجود اکثر بچوں کے والدین انھیں عام سکولوں میں بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں یا پھربعض اوقات سکولوں میں بھی ان کے لیے ماحول دوستانہ نہیں ہوتا۔
ناقدین کے مطابق اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی ہونہار بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساس کمتری کا شکار ہو کر ان کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر اورنگزیب رحمان نے اس صورت حال پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کا آئین معمولی معذوری کا شکار ایسے بچوں کی عام سکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
وزارت تعلیم ہی کے ایک اور عہدیدار پروفیسررفیق طاہر نے کہا کہ حکومت معذور بچوں کو برابری کی سطح پر تعلیم کا حق دینے کا عزم رکھتی ہے جس کے تحت سال 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں اس شق کو خاص طور پر شامل کیا گیا ہے کہ درمیانہ درجے کی مزوری کا شکار بچوں کو یہ پورا حق ہو کہ وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے سکیں ۔
پروفیسر رفیق نے بتایا کہ حکومت نے معذور بچوں کو تعلیمی دھارے میں لانے کے لیے ایک خصوصی پروگرام شروع کیا ہے جو صوبوں تک بھی بڑھایا جا رہا ہے ۔ اس کے تحت پہلے مرحلے میں وفاقی دارلحکومت کے آٹھ اور اس سے ملحقہ دیہاتوں میں چار اسکولوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو معذور بچوں کو داخل کیا گیا اور یہ بچے اب کامیابی سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں معذور بچوں کی تعلیم سے محرومی سے اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول میں بھی دشواری ہوگی جس کے تحت پاکستان کو 2015ء تک ملک میں سو فیصد پرائمری تعلیم کو یقینی بنانا ہے۔
پروفیسر رفیق طاہر کے مطابق سو فیصد بنیادی تعلیم کا ہدف حاصل کرنا یا معذور بچوں کو تعلیمی دھارے میں لانے کا انحصار صرف وسائل یا فنڈزپر ہی نہیں بلکہ اس کے لیے اساتذہ اور والدین کی تربیت کر کے ان کی سوچ میں تبدیلی لانا بھی ضروری ہے۔
”اس کے ساتھ ساتھ سکولوں کا ماحول انتا دوستانہ اور پرکشش بنانے کی ضرورت ہے کہ بچوں کو یہاں اکتاہٹ کا احساس نہ ہو بلکہ یہاں ان کی دلچسپی کا تمام وہ سامان ہو جو انہیں تعلیم کی طرف راغب کرے“۔
ان ہی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے وزارت تعلیم اور غیر سرکاری اداروں نے اسلام آباد میں ایک دو روزہ بیں الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے جس میں ماہرین ایک دوسرے سے پاکستان میں بچوں کے لیے سکولوں کا ماحول دوستانہ بنانے اور تعلیم سے محروم بچوں کو سکولوں میں لانے کے بارے میں اپنے تجربات اور مہارت کا تبادلہ کریں گے .