اسلام آباد —
اقوام متحدہ کی جانب سے جمعرات کو ایشیائی ممالک کے اقتصادی اورسماجی سروے پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا کہ اقتصادی طور پر پاکستان خطے کے بیشتر ممالک سے اب بھی کافی کمزور ہے تاہم توانائی کے بحران، تیل کی قیتوں میں اضافے، بیرون ملک سے کم سرمایہ کاری اور قدرتی آفات کے باوجود، گزشتہ سال ملک کی مجموعی پیداوار میں 3 اعشاریہ 7 فیصد تک اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں افراط زر اور بجٹ میں خسارے کی وجوہات حکومت کا اپنے اخراجات کے لیے اسٹیٹ بنک سے بے دریغ قرضے لینا، بجلی اور گیس پر سبسیڈیز اور ٹیکس نیٹ میں توسیع نا کرنا ہیں۔ رپورٹ میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان کی رواں مالی سال میں بھی مجموعی پیداوار کی شرح 3 اعشاریہ 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔
اسی مدت میں رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش، بھارت اور برما کی یہ شرح بالترتیب 6، 6 اعشاریہ 4 اور 6 اعشاریہ 3 فیصد ہوگی۔
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ معیشت حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی رہی ہی نہیں جس کی وجہ سے حکومتوں کے تبدیل ہونے سے اقتصادی پالیساں کے بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
’’گروتھ اس شعبے سے نہیں آئی جہاں غریب اور کم آمدنی والے لوگ برسر روزگار ہیں یعنی زراعت، چھوٹے کارخانے ہیں۔ ان کو فائدہ نہیں ملا۔ اب دنیا کی سوچ ہے کہ میلینیم گولز کا جو ٹارگٹ رکھا تھا وہ تو کافی حد تک حاصل ہو گیا لیکن اس میں آمدن کی تقسیم میں بہت فرق پڑا ہے۔ غریب غریب ہوا اور امیر اور امیر۔ مگر اب یہ سوچ ہے کہ اس خلاء کو کم کیا جائے۔‘‘
اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے 25 لاکھ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع اپنی جگہ ایک بہت بڑا چلینج ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی شرح نمو تقریباً سات فیصد ہونی چاہئے۔
’’توانائی کا بحران طلب و رسد کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزور انتظامی امور کی وجہ سے ہے۔ آپ اسے درست کرلیں تو دو سے تین فیصد شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔ ہم کیا کررہے ہیں؟ ہم گیس و بجلی پر سبسڈیز دے کر اپنا پیسہ ضائع کر رہے ہیں یا غیر منافع بخش اداروں کو فعال بنانے پر۔ یہاں سے پیسہ بچا کر صحت و تعلیم پر خرچ کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال پاکستان میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تھی۔
پاکستان میں تعلیم اور صحت پر مجموعی طور پر بجٹ کا صرف تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ماہرین کے مطابق ملک کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی نا کافی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں اقتصادی ترقی کے باوجود اب بھی 80 کروڑ ایسے افراد ہیں جن کی روزانہ آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے اور ایک ارب ایسے لوگ ہیں جن کے روزگار کو کوئی تحفظ نہیں۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں افراط زر اور بجٹ میں خسارے کی وجوہات حکومت کا اپنے اخراجات کے لیے اسٹیٹ بنک سے بے دریغ قرضے لینا، بجلی اور گیس پر سبسیڈیز اور ٹیکس نیٹ میں توسیع نا کرنا ہیں۔ رپورٹ میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان کی رواں مالی سال میں بھی مجموعی پیداوار کی شرح 3 اعشاریہ 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔
اسی مدت میں رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش، بھارت اور برما کی یہ شرح بالترتیب 6، 6 اعشاریہ 4 اور 6 اعشاریہ 3 فیصد ہوگی۔
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ معیشت حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی رہی ہی نہیں جس کی وجہ سے حکومتوں کے تبدیل ہونے سے اقتصادی پالیساں کے بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
’’گروتھ اس شعبے سے نہیں آئی جہاں غریب اور کم آمدنی والے لوگ برسر روزگار ہیں یعنی زراعت، چھوٹے کارخانے ہیں۔ ان کو فائدہ نہیں ملا۔ اب دنیا کی سوچ ہے کہ میلینیم گولز کا جو ٹارگٹ رکھا تھا وہ تو کافی حد تک حاصل ہو گیا لیکن اس میں آمدن کی تقسیم میں بہت فرق پڑا ہے۔ غریب غریب ہوا اور امیر اور امیر۔ مگر اب یہ سوچ ہے کہ اس خلاء کو کم کیا جائے۔‘‘
اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے 25 لاکھ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع اپنی جگہ ایک بہت بڑا چلینج ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی شرح نمو تقریباً سات فیصد ہونی چاہئے۔
’’توانائی کا بحران طلب و رسد کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزور انتظامی امور کی وجہ سے ہے۔ آپ اسے درست کرلیں تو دو سے تین فیصد شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔ ہم کیا کررہے ہیں؟ ہم گیس و بجلی پر سبسڈیز دے کر اپنا پیسہ ضائع کر رہے ہیں یا غیر منافع بخش اداروں کو فعال بنانے پر۔ یہاں سے پیسہ بچا کر صحت و تعلیم پر خرچ کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال پاکستان میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تھی۔
پاکستان میں تعلیم اور صحت پر مجموعی طور پر بجٹ کا صرف تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ماہرین کے مطابق ملک کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی نا کافی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں اقتصادی ترقی کے باوجود اب بھی 80 کروڑ ایسے افراد ہیں جن کی روزانہ آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے اور ایک ارب ایسے لوگ ہیں جن کے روزگار کو کوئی تحفظ نہیں۔