رسائی کے لنکس

اقتصادی روابط کے لیے افغانستان میں امن 'ناگزیر'


اقتصادی امور کے ماہر قیصر بنگالی نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ خطے میں اقتصادی روابط کے لیے افغانستان میں امن ناگزیر ہے۔

اقتصادی تعاون تنظیم کا تیرہواں اجلاس آئندہ بدھ کو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے جس سے قبل رکن ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس اتوار کو شروع ہوا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری کا کہنا تھا کہ تنظیم کا تصور برائے 2025ء بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور تجارتی روابط میں اضافے کے ساتھ خطے میں سماجی و اقتصادی ترقی کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔

انھوں نے خاص طور پر افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں امن پاکستان کو بہت عزیز ہے اور وہ افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔

یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہونے جا رہا ہے جب پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات حالیہ مہیںوں سے سرد مہری کا شکار ہیں جس کی وجہ دونوں ممالک کی طرف سے ایک دوسرے پر اپنے اپنے ہاں دہشت گردی کے واقعات پر ایک دوسرے کی طرف انگشت نمائی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کہتے ہیں کہ یہ اجلاس پاکستان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ ان کے بقول اس میں ہونے والے فیصلے خطے میں آنے والے وقت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں استحکام کے لیے کوشاں ہے۔

"افغانستان میں بے شمار معدنی ذخائر ہیں تمام ممالک کی یہ کوشش ہے اور پاکستان کی بالخصوص کہ افغانستان میں استحکام ہو تاکہ اس پورے خطے میں اس (افغانستان) کی جو اقتصادی صلاحیت ہے اس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔"

مبصرین کہتے ہیں کہ اقتصادی تعاون تنظیم کی اہمیت اپنی جگہ مگر افغانستان میں پائیدار امن اور خطے کے ممالک کے آپسی اختلافات کو دور کیے بغیر کیے جانے والے اقدام دیرپا ثابت نہیں ہو سکتے۔

اقتصادی امور کے ماہر قیصر بنگالی نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ خطے میں اقتصادی روابط کے لیے افغانستان میں امن ناگزیر ہے۔

"جہاں تک رابطوں کی بات ہے تو اس کے لیے افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ دوسری صورت میں ایران کا راستہ ہی رہتا ہے مشرق وسطیٰ تک جانے کے لیے یا پھر چین بھی ہے لیکن وہ بہت طویل ہو جاتا ہے۔"

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ خطے کے ممالک اگر اپنے سیاسی معاملات اور تنازعات کو معاشی ترقی میں حائل نہ ہونے دیں تو ہی ایسی تنظیموں کے تحت کیے گئے اقدام ثمر بار ہو سکتے ہیں۔

"پاکستان ہو ایران ہو افغانستان ہو انھیں معاشی ترقی کی بڑی ضرورت ہے تو میرا خیال ہے کہ اس معاشی میدان میں یہ بہت آگے جا سکتے ہیں اگر آپ معاشی طور پر اقتصادی طور پر تعاون کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں اور سیاسی معاملات کو کشیدگی کا باعث نا بنائیں نا ہی انھیں ترجیح دیں تو میرا خیال ہے کہ بڑی اچھی توقعات پیدا ہو سکتی ہیں۔"

اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کا اجلاس پیر کو بھی جاری رہے گا۔

XS
SM
MD
LG