پاکستان میں وفاقی محکمہ صحت اور عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فیصل آباد میں ہلاک ہونے والے شخص کی موت کی وجہ ایبولا وائرس نہیں تھی۔
قومی ہیلتھ سروسز اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق چالیس سالہ ذوالفقار علی کی ہلاکت ڈینگی بخار سے ہوئی اور وہ ’ہیپاٹائٹس سی‘ کا بھی مریض تھا۔
ذوالفقار احمد 10 روز قبل ہی مغربی افریقی ملک ٹوگو سے اپنے آبائی علاقے چنیوٹ پہنچا تھا، وہ تین سال تک ٹوگو میں رہا۔
فیصل آباد کے اسپتال میں جب ذوالفقار کو داخل کروایا گیا تو وہ شدید بخار میں مبتلا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ٹوگو ایبولا سے متاثرہ ممالک میں شامل نہیں ہے اور نا ہی ذوالفقار احمد نے اس وائرس سے متاثرہ کسی پڑوسی ملک کا سفر کیا۔ جب کہ طبی تجزیوں اور تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ذوالفقار کو لاحق ’ہیپاٹائٹس سی‘ کا عارضہ انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکا تھا۔
صوبہ پنجاب کے محکمہ صحت نے ابتدائی احتیاطی تدبیر کے طور پر ایک ٹیم ذوالفقار احمد کے آبائی علاقے چنیوٹ جب کہ دوسری ٹیم فیصل آباد بجھوائی ہے تاکہ جن افراد سے متاثرہ شخص کی ملاقاتیں ہوئیں اُن سے متعلق معلومات اکٹھی کر کے اُن جائزہ لیا جائے۔
اس بارے میں پنجاب حکومت کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’’ان کے جو اہل خانہ ہیں چینیوٹ میں ’ڈبلیو ایچ او‘ اور محکمہ صحت کی ٹیم وہاں پر کام کر رہی ہے انھوں نے 14 افراد کے خون کے نمونے تجزیے کے لیے ہیں۔‘‘
بیان کے مطابق اس سلسلے میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، عالمی ادارہ صحت اور پنجاب حکومت کے محکمہ صحت سے مسلسل رابطے ہے۔
ذوالفقار احمد کی مبینہ طور پر ایبولا وائرس سے ہلاکت کی خبر کے بعد علاقے میں شدید تشویش اور خوف کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
یہ خبر ایسے وقت آئی جب عالمی ادارہ صحت کی ایک خصوصی ٹیم پاکستان پہنچی ہے اور وہ ملک کے مختلف شہروں میں ایبولا وائرس کے ممکنہ خطرے سے نمٹںے کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لے گی، جس کے بعد وہ اپنی تجاویز سے حکام کو آگاہ کریں گے۔
پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ملک کے تمام بین الااقومی ہوائی اڈوں پر مسافروں کی جانچ اور تجزیے کے لیے انتطامات کیے گئے ہیں۔
خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق انتظامات کیے گئے ہیں۔
’’پنجاب اور ہم سب ہر ہفتے احتیاطی طور پر اجلاس منعقد کرتے ہیں۔۔۔ ڈاکٹروں کی ٹریننگ مکمل ہے لاہور اور فیصل آباد میں الگ کمرے مختص ہیں تاکہ اگر خدانخواستہ ایبولا کا کوئی مریض آئے یہ مرض منتقل نا ہو۔‘‘
ایبولا وائرس نے سب سے زیادہ مغربی افریقہ کے تین ملکوں لائیبریا، سیرالیون اور گنی کو متاثر کیا ہے جہاں اب تک لگ بھگ پانچ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادراہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ایبولا ایک بین الاقوامی خطرہ ہے اس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔
واضح رہے کہ افریقی ممالک میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فوج میں پاکستانی فوجی اہلکار بھی شامل ہیں جن کو ملک واپسی سے قبل طبی جانچ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں ابھی تک ایبولا وائرس کا کوئی بھی کیس سامنا نہیں آیا۔