آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کی ہولناک تباہی پاکستانیوں کے ذہنوں پر ایسی ثبت ہے کہ 24 ستمبر کو زلزلے کے بعد جیسے ہی یہ خبر آئی کہ میر پور کے علاقوں میں جانی و مالی نقصان کا خدشہ ہے تو سب کے سامنے 2005 کے زلزلے کے مناظر گردش کرنے لگے۔
ہنگامی صورتِ حال کے پیش نظر وی او اے کی ٹیم کو جلد سے جلد میر پور پہنچنا تھا۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے چیف سیکرٹری نے وی او اے کو یہی بتایا تھا کہ زیادہ تر متاثرین کو میر پور شہر کے اسپتال لایا گیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات چار افراد کی ہلاکت اور سو افراد کے زخمی ہونے کی تھیں۔ لیکن تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے جب ہم میر پور کے ڈویژنل ہیڈکوارٹر اسپتال پہنچے تو ہلاکتوں کی تعداد 26 اور زخمی 300 سے تجاوز کر چکے تھے۔
میر پور پہنچے تو اسپتال کی جانب جانے والی زیادہ تر سڑکوں پر مقامی نوجوان کھڑے تھے جو ہاتھ کے اشارے سے اسپتال کا راستہ بتانے میں مصروف تھے۔
زخمیوں اور ان کے اہل خانہ کا ایک رش اسپتال اور اس کے ارد گرد ہر دروازے پر دیکھا جا سکتا تھا۔
افراتفری کا عالم اور ہر چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے کیوں کہ جگہ کم اور زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی۔
ہم بلڈ بینک سے ہوتے ہوئے سرجیکل ایمرجنسی اور وارڈز تک پہنچے جہاں زخمیوں کے اسٹریچر پڑے تھے۔ بعض بات کرنے کے قابل تھے۔ لیکن بہت سے ایسے زخمی تھے جو زخموں اور زلزلے سے پہنچنے والے ذہنی ٹراما کی وجہ سے سکتے کے عالم میں تھے۔
اسٹریچر پر موجود 22 سالہ اویس نے بتایا کہ وہ ایک جگہ دیہاڑی پر مزدوری کر رہا تھا جب ایک زوردار جھٹکے نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔ اس کے بقول، جب ہوش آئی تو وہ اسپتال میں تھا۔ اویس کی ٹانگ بری طرح زخمی تھی جس پر طبی عملے نے پلستر چڑھا دیا تھا۔ طبی امداد اور ادویات کے باوجود اویس درد کی شدت سے تکلیف میں تھا۔
دوسری طرف بچوں کا وارڈ تھا وہاں کے مناظر بھی تکلیف دہ تھے۔ ایک زخمی بچی نادیہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ منگلا کے بالکل پاس رہتی ہیں۔ ان کی پانچ سالہ بیٹی جھولے سے اس وقت گری جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر کے پچھلے حصے میں کھیل رہی تھی۔ وارڈ میں موجود ڈیوٹی ڈاکٹرز زیادہ تر کم عمر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینئر ڈاکٹرز آپریشنز میں مصروف ہیں۔
افراتفری کے ماحول میں ہم سرجیکل یونٹ سے باہر تو نکل آئے لیکن ابھی یہ جاننا ضروری تھا کہ آخر اسپتال میں کتنے زخمی لائے جا چکے تھے۔ یہ جاننے کے لیے وی او اے کی ٹیم ایڈمن بلاک پہنچی جہاں سیکرٹری صحت بریفنگ کے لیے موجود تھے۔ لیکن اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر فاروق نور وائس آف امریکہ کو تفصیلات سے آگاہ کرنے ہی والے تھے کہ زخمیوں کے لواحقین نے انہیں گھیر لیا۔ فاروق نور نے انہیں یقین دلایا کہ حالات ان کے کنٹرول میں ہیں۔
ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر تو شام ہی کو زخمیوں کی عیادت کر کے جا چکے ہیں۔ لیکن ہمارے واپس مین گیٹ تک آنے تک میڈیا کی ٹیموں کا رش بڑھ چکا تھا۔ جہاں بہت سے رپورٹر براہ راست کوریج دینے میں مصروف تھے۔
اس سے پہلے کہ ہم جاتلاں جاتے ہمیں ایک مقامی شخص نے مطلع کیا کہ منگلا سے بجلی کی پیداوار عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے اور گاؤں میں مکمل اندھیرا ہے۔
انور نامی شخص اپنے بھائی کو لے کر میر پور آیا تھا جس کے بازو پر زلزلے کے دوران سیڑھیوں سے گرنے پر چوٹ آئی تھی۔
ابتدائی علاج کے بعد اس کا خیال تھا کہ وہ واپس جاتلاں لوٹ سکے گا۔ لیکن اس کے لیے اصل پریشانی یہ تھی کہ اس کا مکان بھی سیکڑوں دیگر مکانوں کی طرح بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
یہ ایک ایسی پریشانی تھی جو زخمیوں کے ساتھ آئے افراد میں سے اکثر کے چہروں پر عیاں تھی۔ اسپتال کی بھاگ دوڑ اور ایمبولینسوں کی لمبی قطاریں پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم ںصف شب کے قریب وآپس اسلام آباد کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ کیوں کہ اندھیرے میں اسپتال کی روشنیوں کے سوا اب کچھ دیکھنا ممکن نہ تھا۔