رسائی کے لنکس

ماہی گیری کا موجودہ نظام نایاب نابینا ڈولفن کے لیے مزید خطرات کا باعث


ماہی گیری کا موجودہ نظام نایاب نابینا ڈولفن کے لیے مزید خطرات کا باعث
ماہی گیری کا موجودہ نظام نایاب نابینا ڈولفن کے لیے مزید خطرات کا باعث

یہ ڈولفنز دریاے سندھ کے پانی میں کس تعداد میں ہیں، ڈولفنز کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کی رابطہ کار عظمیٰ نورین بتاتی ہیں کہ ایک ماہ قبل اپریل میں تازہ سروے کیا گیا ہے جس کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے۔تاہم پانچ سال قبل کیا جانے والے سروے کے مطابق اندازہ ہے کہ دریائے سندھ میں 15 سو سے 17 سو کے درمیان ڈولفنز موجود ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ گدو اور سکھر بیراج کے درمیانی علاقے میں پائی جاتی ہیں جہاں صرف تقریباً دو سو کلو میٹر کے رقبہ میں ہی یہ لگ بھگ 1200 کی تعداد میں ہیں۔

دریائے سندھ میں سکھر بیراج کے نزدیک گزشتہ دس دنوں کے دوران مزید پانچ نابینا ڈولفنز کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں وائلڈ لائف کے ماہرین نے سندھ میں رائج موجودہ ماہی گیری نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ فشریز کی جانب سے ماہی گیروں کو بطور لائسنس سستے داموں کارڈ کی فروخت سے دریا ئے سندھ میں نابینا ڈولفن کی پہلے سے نایاب نسل کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں ماہی گیری ٹھیکے داری نظام کے تحت کی جاتی ہے لیکن محکمہ فشریز سندھ نے 2009ء میں اسے ختم کرکے بینظیر فشنگ کارڈ سسٹم جاری کیا جس کی قیمت محض چھ روپے ہے اور محکمے کے مطابق اب تک صوبے میں پانچ ہزار سے زائد ماہی گیروں کویہ کارڈ دیے جاچکے ہیں۔

پاکستان میں ورلڈ وائلڈ لائف کے تحت نابینا ڈولفن کے تحفظ کے پراجیکٹ کی رابطہ کار عظمیٰ نورین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چونکہ یہ کارڈ بہت سستا ہے اور ماہی گیری کے لیے علاقے کی کوئی حد بھی مقرر نہیں لہذا مچھلیاں پکڑنے کے طریقوں میں بے قاعدگیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے بقول مردہ پائی جانے والی ڈولفن کے جسم پر جال کے نشان ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے وہ جال میں پھنس کر مری ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں مردہ پائی جانے والی ان ڈولفنز کی تعداد 12 ہوگئی ہے۔

اکثر ڈالفن جال میں پھنس کر مر جاتی ہیں
اکثر ڈالفن جال میں پھنس کر مر جاتی ہیں

محکمہ فشریز سندھ کے عہدیدار رفیع الدین قریشی اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ولفنز کی ہلاکتوں کا سبب فشنگ کارڈ کانظام نہیں بلکہ سکھر اور روہڑی کے شہر کا گندہ پانی ہے جس نے دریا کے پانی کو زہریلا کردیا ہے ۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ” ہم نے وزارتِ جنگلی حیات کی مشاورت سے اس پانی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کروایا ہے تو وہ زہریلا نکلا البتہ وزارتِ جنگلی حیات نے الزام لگایا ہے کہ مچھیرو ں نے پانی میں کیمیکل ڈالا ہے تا کہ زیادہ مچھلیاں مریں“ ۔

ان کے بقو ل ڈولفنز سندھ کا اثاثہ ہیں اور و زیرفشریز یہ واضح کرچکے ہیں کہ اگر کوئی ثابت کردے کہ ڈولفنزکی ہلاکت کی وجہ کارڈ کانظام ہے تو اس نظام میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

ڈولفن اور وہیل مچھلیاں عام طور پر سمندر کے نمکین پانی میں پائی جاتی ہیں مگر دنیا بھر میں ڈولفن کی چار اقسام ایسی بھی ہیں جو سمندر کے نمکین پانی کے بجائے میٹھے پانیوں میں ہی زندہ رہ سکتی ہیں ۔ان میں ایک دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن ہے جسے مقامی لوگ بلہن کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

یہ ڈولفنز دریاے سندھ کے پانی میں کس تعداد میں ہیں، ڈولفنز کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کی رابطہ کار عظمیٰ نورین بتاتی ہیں کہ ایک ماہ قبل اپریل میں تازہ سروے کیا گیا ہے جس کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے۔تاہم پانچ سال قبل کیا جانے والے سروے کے مطابق اندازہ ہے کہ دریائے سندھ میں 15 سو سے 17 سو کے درمیان ڈولفنز موجود ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ گدو اور سکھر بیراج کے درمیانی علاقے میں پائی جاتی ہیں جہاں صرف تقریباً دو سو کلو میٹر کے رقبہ میں ہی یہ لگ بھگ 1200 کی تعداد میں ہیں۔

XS
SM
MD
LG