پاکستان نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ چین اس کے برآمدی حجم میں اضافے کے لیے اپنے ہاں سازگار ماحول پیدا کرے تاکہ پاکستان کی مصنوعات خصوصاً اشیائے خوردنی کی چین میں نئی منڈیاں بن سکیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ بات منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں چین کے سفیر یاؤ جنگ سے ملاقات میں کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے منصوبے جلد مکمل ہو جائیں گے اور اب پالیسی اور حکمت عملی پر توجہ دی جانی چاہیئے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ چین اپنی درآمدی پالیسی کے ماہرین کو پاکستان بھیجے تاکہ یہاں کے برآمدی قوانین کا جائزہ لیا جائے کیونکہ اب تک پاکستان کی محض چند مصنوعات ہی چین کی منڈیوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چینی مصنوعات کا درآمدی حجم تقریباً 12 ارب ڈالر جب کہ چین کے لیے پاکستانی برآمدی اشیا کا حجم ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو اس جانب بھی توجہ دے کر باہمی تجارت کے عدم توازن میں کمی لانے میں مدد دینی چاہیئے۔
چین نے اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں لگ بھگ 50 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنی ہے جب کہ بھارت کے ساتھ اس کا سالانہ تجارتی حجم 75 ارب ڈالر کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔
اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ پاکستان کو خاص طور پر چین میں مسلم اکثریتی آبادی کے علاقوں میں کھانے کی حلال اشیا کی منڈیوں پر توجہ دینی چاہیئے جو کہ ان کے بقول ایک بہت بڑی منڈی ثابت ہو سکتی ہے۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان آزادانہ تجارت کا ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے لیکن پاکستان اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے۔
"پاکستان اس (چین) کی حلال مارکیٹ کی بڑی منڈی بن سکتا ہے خاص طور پر مغربی صوبوں سنکیانگ اور اس خطے پر توجہ دیں ان علاقوں کی جو غذائی ضروریات ہیں ہم پوری کر سکیں۔۔۔چین کے لیے پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چین کی غذائی ضروریات اور کلچر کو سمجھنا ہو گا اور اگر اس کے مطابق آگے بڑھا جائے تو کامیابی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔