رسائی کے لنکس

’فوجی افسران کو امریکہ کے خلاف تعصب پرمبنی تربیت کی فراہمی‘


’فوجی افسران کو امریکہ کے خلاف تعصب پرمبنی تربیت کی فراہمی‘
’فوجی افسران کو امریکہ کے خلاف تعصب پرمبنی تربیت کی فراہمی‘

وکی لیکس نے جو مراسلہ افشا کیا ہے اس میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں 2007ء میں کی گئی اپنی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں اس موقع پر فوجی افسران کی طرف سے امریکہ کے بارے میں ’’حیران کن حد تک سادہ اور تعصب پر مبنی‘‘ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

وکی لیکس نے مئی 2008ء میں پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبیلو پیٹرسن کی طرف سے واشنگٹن بھیجے گئے ایک سفارتی مراسلے کی تفصیلات جاری کی ہیں جن کے مطابق اسلام آباد کی عسکری درس گاہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں فوجی افسران کو دی جانے والی تربیت میں امریکہ مخالف رجحانات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

امریکی سفیر کے بقول تعصب پر مبنی یہ تربیت حاصل کرنے والوں میں پاکستانی فوج کے کرنل اور برگیڈیئر کے عہدوں والے افسران شامل ہیں۔

اپنے مراسلے میں این پیٹرسن نے کہا ہے کہ ان فوجی افسران کو امریکہ کے بارے میں متبادل رائے ملنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تربیت کاروں کا تبادلہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

وکی لیکس کے یہ تازہ انکشافات بدھ کو انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے شائع کیے لیکن نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) کے اساتذہ اور پاکستانی پارلیمان کے اراکین نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی یاسمین رحمٰن نے کہا کہ وہ خود این ڈی یو سے ایک خصوصی کورس کر چکی ہیں تاہم اُنھیں اور اُن کے دیگر ساتھیوں کو ایسا کوئی تاثر نہیں ملا کہ اس درس گاہ میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف تعصب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

’’پاکستانی فوج اور جمہوری حکومت کسی ملک کے خلاف نہیں ہیں۔ ہاں! ہم اُن پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں جو پاکستان کے خلاف ہیں۔ وہ پالیسیاں چاہے امریکہ کی ہوں، روس کی یا کسی بھی دوسرے ملک کی، ہم اُن کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

وکی لیکس نے جو مراسلہ افشا کیا ہے اس میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں 2007ء میں کی گئی اپنی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں اس موقع پر فوجی افسران کی طرف سے امریکہ کے بارے میں ’’حیران کن حد تک سادہ اور تعصب پر مبنی‘‘ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

این پیٹرسن کا موقف تھا کہ پاکستان پر امریکی پابندیوں کے بعد عسکری تربیت کے بین الاقوامی پروگرام ’’آئی ایم ای ٹی‘‘ کے معطل ہونے کی وجہ سے جو پاکستانی فوجی اس سے محروم رہ گئے اُن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

این پیٹرسن
این پیٹرسن

امریکی سفیر کے مراسلے میں این ڈی یو میں 2008ء میں تربیت پانے والے امریکی فوج کے ایک کرنل مائیکل اسلیشر (Michael Schleicher) کے مشاہدوں کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے، جس کے مطابق یونیورسٹی کے اساتذہ امریکہ سے متعلق کئی غلط فہمیوں کا شکار ہیں جن کا عکس ان کے لیکچرز میں بھی ملتا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کچھ اساتذہ کے خیال میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی میڈیا کے نمائندوں کی تربیت کر رہی ہے تو بعض سمجھتے ہیں کہ امریکی میڈیا پر ملک کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا کنٹرول ہے۔

امریکی افسر کے مطابق ان کے ساتھ تربیت حاصل کرنے والے 135 افراد میں سے ایک تہائی سخت مذہبی رجحانات رکھتے تھے۔ کرنل مائیکل اسلیشر کا کہنا تھا کہ این ڈی یو میں اعلیٰ افسران کے لیے کورس کے تین جز ہوتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد قومی وقار کو اُجاگر کرنا، پاکستان کے قیام کی وجوہات اور اس کے آئین پر غور، اور اقتصادی اُمور اور پانی و توانائی کے مسائل سے آگاہی ہوتا ہے۔

کرنل مائیکل اسلیشر نے اپنے تبصرے میں اس تعجب کا بھی اظہار کیا کہ امریکہ کے خلاف تعصب رکھنے والے کئی سینیئر تربیت کاروں کے اپنے بچوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے یا کر رہے ہیں۔

امریکی حکام کے یہ خدشات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب واشنگٹن کی پاکستانی فوج میں امریکہ مخالف جذبات پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر امریکی پالیسیوں پر تحفظات کے علاوہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کی وجہ سے پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف جذبات بڑھ رہے ہیں جن میں رواں ماہ ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن کے بعد نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG