اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف باقاعدہ فوجی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے ردعمل میں سکیورٹی اداروں سے دفاع کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔
دہشت گردوں کے حالیہ حملوں کے بعد جمعرات کو فوج نے جیٹ طیاروں کی مدد سے قبائلی شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں کم ازکم 35 مبینہ جنگجو مارے گئے۔
جس کے بعد بظاہر یہ تاثر تھا کہ حکومت نے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے تاہم چوہدری نثار نے اس کی نفی کی۔
’’وہاں (طالبان) کی طرف سے دہشت گردی کے کارروائیاں ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنے دفاعی اداروں سے اُن سے دفاع کا اور تحفظ کا اختیار نہیں چھین سکتے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اُسی کا عکاس ہے۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ریاست کی یہ صلاحیت ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو دیگر راستے بھی موجود ہیں۔
’’میں اب بھی سمجھتا ہوں اور رابطے ہوئے ہیں اور واضح امکانات ہیں کہ بات چیت کا عمل پھر پٹڑی پر آئے گا، میں کافی پر اُمید ہوں مگر جو موقف حکومت نے اپنا ہے وہ اٹل ہے کہ مذاکرات اور دھماکے و تشدد کی کارروائیاں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘
کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں کراچی میں پولیس وین پر بم حملے میں 13 اہلکاروں کی ہلاکت اور گزشتہ اتوار کو 23 مغوی سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے دعوے کے بعد حکومت اور طالبان کی تشکیل کردہ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا عمل معطل ہو گیا تھا۔
چودھری نثار نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں کے بعد وزیراعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ تشدد کے ماحول میں مذاکرات کو آگے بڑھانا اُن لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی جو دہشت گردی کا نشانہ بنے۔
دہشت گردوں کے حالیہ حملوں کے بعد جمعرات کو فوج نے جیٹ طیاروں کی مدد سے قبائلی شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں کم ازکم 35 مبینہ جنگجو مارے گئے۔
جس کے بعد بظاہر یہ تاثر تھا کہ حکومت نے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے تاہم چوہدری نثار نے اس کی نفی کی۔
’’وہاں (طالبان) کی طرف سے دہشت گردی کے کارروائیاں ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنے دفاعی اداروں سے اُن سے دفاع کا اور تحفظ کا اختیار نہیں چھین سکتے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اُسی کا عکاس ہے۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ریاست کی یہ صلاحیت ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو دیگر راستے بھی موجود ہیں۔
’’میں اب بھی سمجھتا ہوں اور رابطے ہوئے ہیں اور واضح امکانات ہیں کہ بات چیت کا عمل پھر پٹڑی پر آئے گا، میں کافی پر اُمید ہوں مگر جو موقف حکومت نے اپنا ہے وہ اٹل ہے کہ مذاکرات اور دھماکے و تشدد کی کارروائیاں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘
کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں کراچی میں پولیس وین پر بم حملے میں 13 اہلکاروں کی ہلاکت اور گزشتہ اتوار کو 23 مغوی سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے دعوے کے بعد حکومت اور طالبان کی تشکیل کردہ کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کا عمل معطل ہو گیا تھا۔
چودھری نثار نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں کے بعد وزیراعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ تشدد کے ماحول میں مذاکرات کو آگے بڑھانا اُن لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی جو دہشت گردی کا نشانہ بنے۔