پاکستان میں سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے بنائے گئے مسودہ قانون پر انسانی حقوق اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے تحفظات کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے اس پر نظر ثانی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
الیکٹرانک جرائم کو روکنے کے بل 2015ء کو اس کمیٹی نے گزشتہ ماہ منظور کیا تھا جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کی تیاری کی جارہی تھی۔ لیکن حزب مخالف کے ارکان سمیت متعلقہ حلقوں کی طرف سے اس پر اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس میں ان حلقوں کے نمائندوں کو مدعو کر کے تبادلہ خیال کیا جائے۔
کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں چیئرمین محمد صفدر کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے لیے تیار تھا لیکن فریقین کی طرف سے جو خدشات سامنے آئے ہیں انھیں مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ اس پر دوبارہ غور کیا جائے۔
مجوزہ بل کے تحت حکام انٹرنیٹ پر موجود مواد کو سنسر کرنے کے علاوہ صارفین کی کئی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے اور عدالتی نظر ثانی کے بغیر صارفین کے "ڈیٹا" تک پہنچ سکیں گے۔
جمعہ کو کمیٹی کے ہونے والے مشاورتی اجلاس میں بعض غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنان نے شرکت کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس میں بھی تمام فریقین کو مدعو نہیں کیا گیا جس سے بظاہر حکومتی کوششوں میں سنجیدگی کا فقدان نظر آتا ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا اصرار ہے کہ ملک کو درپیش موجودہ حالات میں مجوزہ قانون کی اشد ضرورت ہے جس سے سائبر جرائم کے انسداد، ملکی سلامتی کا دفاع کرنے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت و ادائیگیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے گا۔