رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: 33 لاپتہ افراد کو منگل کو پیش کرنے کا حکم


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ انھوں نے حال ہی میں وزرات کا قلم دان سنبھالا ہے اس لیے ان لاپتہ افراد سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے کے لیے انھیں کچھ وقت دیا جائے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے مزید مہلت سے متعلق حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ 33 لاپتہ افراد کو منگل کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

پیر کو سماعت کے دوران وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ انھوں نے حال ہی میں وزرات کا قلم دان سنبھالا ہے اس لیے انھیں لاپتہ افراد سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے کے لیے انھیں کچھ وقت دیا جائے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھانے اور متعلقہ محکموں سے اس پر بریفنگ لینے کے بھی خواہاں ہیں۔

تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی بہت وقت دیا جا چکا ہے۔

یہ افراد ایسے وقت لاپتہ ہوئے جب ملک کے شمال مغربی حصے میں القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور ان کے رشتہ داروں کا دعویٰ ہے کہ خفیہ اداروں نے انھیں شدت پسندوں سے رابطوں کے شبہ میں اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔

پیر کو کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے بعد یہ معاملہ نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے علم میں یہ تمام چیزیں لائی جائیں گی۔

تاہم عدالتی ڈیڈ لائن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’’آپ اس پر مجھ سے میرے تاثرات نا لیں۔ دیکھیں معاملہ بہت نازک ہے اور اس پر میرا کسی قسم کا تبصرہ عدالت کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘

عدالتِ عظمیٰ کے مطابق گزشتہ تقریباً دو سال سے یہ مقدمہ زیر سماعت ہے اور اس دوران حکومت کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ مجموعی طور پر 35 لاپتہ افراد میں سے دو مشتبہ لوگ ملک کے شمال مغربی علاقے میں قائم ایک تفتیشی مرکز میں اپنی طبعی موت مر چکے ہیں۔

سینیئر وکیل طارق اسد بھی چند دوسرے ’لاپتہ‘ افراد کی بازیابی کے مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’جب بھی ہمیں امید ہوتی ہے کہ کسی تاریخ پر ہمارے حق میں فیصلہ آئے گا، اس سے پہلے سپریم کورٹ پر اتنا دباؤ آیا کہ پھر صورت حال بدل گئی۔‘‘

تاہم سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد سے متعلق معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے اور کم از کم ان کی تحویل سے متعلق معلومات بھی سامنے آ رہی ہیں۔

’’قانون دان کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ انھیں اٹھانے والوں کے پاس قانونی دستاویزات پوری نا ہوں۔ وہ ابھی تفتیش کر رہے ہوں کہ کچھ سامنے آئے اور وہ (ان افراد کو) پیش کریں۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں کے معاملے پر شدید تنقید اور یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ حکومت اس کا نوٹس لیتے ہوئے موثر اقدامات کرے۔

حکومت کا کہنا ہے لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لیے کام جاری ہے جس میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
XS
SM
MD
LG