رسائی کے لنکس

'نئے کاغذاتِ نامزدگی معلومات جاننے کے حق کے منافی ہیں'


پاکستان کی پارلیمان (فائل فوٹو)
پاکستان کی پارلیمان (فائل فوٹو)

کنور دلشاد کے خیال میں سیاست دانوں نے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کاغذاتِ نامزدگی کو سہل بنایا اور احمد بلال محبوب بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے آئندہ عام انتخابات کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیے جانے کے بعد پیر سے الیکشن کمیشن نے آئینی اصلاحات کے تحت بنائے گئے نئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرنا تو شروع کر دیے ہیں، لیکن غیر جانب دار حلقوں کی طرف سے اس بارے میں یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ امیدواروں کے بارے میں بعض بنیادی معلومات کے علاوہ کئی ایسی چیزوں کا اس فارم میں شامل نہ ہونا مناسب نہیں اور یہ رائے دہندہ کی معلومات تک رسائی کے حق کے بھی منافی ہے۔

تاہم سیاسی جماعتیں پارلیمان میں متفقہ طور پر منظور ہونے والے الیکشن ایکٹ کے تحت بنائے گئے اس فارم کو درست قرار دیتے ہوئے ان تحفظات کو مسترد کر چکی ہیں۔

گزشتہ انتخابات کے کاغذاتِ نامزدگی کے برعکس نئے کاغذات میں امیدوار کو اپنی تعلیم اور موجودہ پیشے کی تفصیلات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اہم مالی معاملات بشمول قرضہ جات اور فوجداری مقدمات کی بابت اقرار نامہ درکار ہے۔

امیدواروں کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہو گا کہ وہ یہ اقرار نامہ دیں کہ وہ نادہندہ تو نہیں ہیں۔

جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک مؤقر غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے اس بارے میں تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کاغذاتِ نامزدگی سے یہ اقرار نامے ختم کرنا درست نہیں ہے۔

پیر کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رائے دہندگان کے لیے امیدوار کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے۔

"اگرچہ بالواسطہ طور پر ان میں سے چند ایک معلومات تو آپ کو مل جائیں گی اور کچھ ایسی ہیں جو نہیں ملیں گی۔ مثلاً امیدوار کی تعلیمی قابلیت مجھے معلوم ہونی چاہیے کہ میرے امیدوار کی تعلیم کیا ہے، لیکن وہ مجھے کہیں نہیں ملے گی۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ اس کا پیشہ کیا ہے، تو یہ مجھے کہیں سے نہیں ملے گا۔ یہ چیزیں اس سے غائب کر دی گئی ہیں۔ جو ووٹرز کو جاننے کا حق ہے یہ اس کو متاثر کرتی ہیں جو بڑی غلط بات ہے۔"

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری اور شفاف انتخابات کے ذریعے جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن' کے چیئرمین کنور دلشاد بھی ایسے ہی تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے وقت الیکشن کمیشن نے یہ درخواست کی تھی کہ کاغذاتِ نامزدگی سے متعلق معاملے کو رولز میں ہی رہنے دیا جائے تا کہ اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی کی جا سکے اور اسے ایکٹ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ لیکن اصلاحاتی کمیٹی نے یہ درخواست مسترد کر کے ان کے بقول الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھ دیے۔

پارلیمان نے گزشتہ سال کے اواخر میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی منظوری دی تھی۔ گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے نئے کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف فیصلے پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ انتخابات میں تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔

لیکن کنور دلشاد ایسے خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کاغذات ایک دو دن میں چھپ سکتے ہیں اور امیدوار ویب سائٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔

"2013ء کے انتخابات میں 18000 امیدوار میدان میں اترے تھے جو آخری دنوں میں چھ ہزار رہ گئے تھے۔ تو دس بارہ ہزار امیدوار آئیں گے۔ ان کے لیے یہ پرفارما چھاپنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ الیکشن شیڈول متاثر نہیں ہو گا۔ صرف اتنا متاثر ہو سکتا ہے کہ چھ جون جو آخری تاریخ تھی کاغذات جمع کروانے کی وہ اب آٹھ جون کر دی گئی ہے۔ تو انتخابات تو 25 جولائی کو ہی ہوں گے۔"

ان کے خیال میں سیاست دانوں نے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کاغذاتِ نامزدگی کو سہل بنایا اور احمد بلال محبوب بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

پلڈاٹ کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ "اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امیدواران کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ان کے حلفیہ بیان میں کوئی تضاد ہوتا تھا تو اس بنیاد پر ان کا مواخذہ ہوتا تھا۔ اس سے بچنے کے لیے انھوں نے غالباً کیا ہے جو بڑی زیادتی ہے۔۔۔ چلیں (کاغذات نامزدگی میں تبدیلی) اس الیکشن کے لیے نہ سہی اگلے الیکشن کے لیے ہو جائے۔ کچھ تو ہو جائے۔"

لیکن سیاسی جماعتوں کا استدلال ہے کہ یہ تبدیلی پارلیمان کی متفقہ رائے سے کی گئی ہے اور اس میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمان کو ہی ہے۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ ان فارمز میں تمام ضروری معلومات طلب کی گئی ہیں اور مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے بھی یہی کاغذاتِ نامزدگی استعمال کیے گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG