پاکستان میں حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے مزید مراعات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت کنسٹرکشن کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ان کے ذرائع آمدن کا سوال نہیں کیا جائے گا۔
کنسٹرکشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ پیکیج بہت اچھا ہے، لیکن یہ قلیل مدت کے لیے ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے پراپرٹی مافیا کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔
حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے جس پیکج کا اعلان کیا ہے اس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مطابق بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس رجیم نافذ کر دیا ہے۔
ایف بی آر کا نیا ایس آر او
تعمیراتی شعبہ کے لیے جاری کردہ مراعات کے مطابق ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ٹیکس واجبات کی ادائیگی مربع فٹ اور گز کے حساب سے ہو گی۔ واجبات کی ادائیگی سہ ماہی بنیادوں پر ہو گی۔
نئے اور موجودہ منصوبوں کی رجسٹریشن 31 دسمبر 2020 تک کی جا سکتی ہے۔ منصوبوں کی رجسٹریشن ایف بی آر کے آن لائن آئی آر آئی ایس پورٹل کے ذریعے ہو گی۔
اسکیم کے تحت موجودہ نامکمل منصوبوں کو بھی اس سکیم کے تحت رجسٹر کیا جا سکے گا۔ یہ منصوبے ہر حال میں 30 ستمبر 2022 تک مکمل کرنے ہوں گے۔
تعمیراتی شعبہ کے لیے سیمنٹ اور سریا کے علاوہ بلڈنگ مٹیریل پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ ہو گی۔ کمپنیوں کے علاوہ تعمیراتی صنعت سے وابستہ خدمات پر بھی ودہولڈنگ ٹیکس چھوٹ ہو گی۔
کم لاگت کے مکانوں کی تعمیر پر 90 فیصد فکسڈ ٹیکس کی کمی ہو گی،جب کہ بلڈرز اور ڈویلپرز کمپنیوں کے ذریعہ ادا کئے گئے منافع پر ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔ منافع کی ادائیگی پر کسی قسم کی روک نہیں ہو گی۔
نئے پیکج کے تحت نئے تعمیراتی منصوبوں میں انفرادی طور پر سرمایہ کاری کرنے والوں سے آمدنی کا نہیں پوچھا جائے گا۔ نئے بینک اکاؤنٹ میں یہ رقم 31 دسمبر 2020 تک جمع کرائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ 17 اپریل 2020 تک زمین کا ملکیتی ثبوت بھی فراہم کرنا ہو گا۔
عام افراد کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کے ذرائع آمدنی کی پوچھ نہیں ہو گی۔ لیکن کمپنی کی رجسٹریشن 17 اپریل 2020 سے 31 دسمبر 2020 کے دوران لازمی ہے۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ڈویلپرز کی لینڈ سکیپنگ مکمل اور 50 فیصد پلاٹ کی فروخت ہونے کی شرط ہو گی اور فروخت ہوئے پلاٹ کی 40 فیصد رسیدیں موجود ہونے کی شرط بھی لگائی گئی ہے۔
اسکیم کے تحت پلاٹ کی خریداری پر ٹیکس چھوٹ کے حصول کیلئے پلاٹ 31 دسمبر 2020 تک مکمل ادائیگی لازمی قرار دی گئی ہے اور اس پلاٹ پر تعمیراتی کام کا آغاز 31 دسمبر 2020 سے پہلے شروع کرنا ضروری ہو گا اور تعمیراتی کام کو 30 ستمبر 2022 تک مکمل کرنا ہو گا۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ عمارت کی خریداری کی صورت میں 30 ستمبر 2022 تک مکمل ادائیگی پر رعایت حاصل کی جا سکتی ہے۔پبلک آفس ہولڈرز، سرکاری کمپنیاں اور کمپنیاں آمدنی پر پہلے سے چھوٹ فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔ 500 مربع گز یا 4000 مربع فٹ کی ذاتی رہائش پر ٹیکس چھوٹ ایک بار ہو گی۔
پلانٹ اور مشینری کی درآمد کے تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے۔
غیر منقولہ جائیداد پر ایڈوانس ٹیکس 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں غیر منقولہ جائیداد اور حصص پر کیپٹل ویلیو ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے۔
بلڈرز کیا کہتے ہیں؟
تعمیراتی شعبہ سے منسلک اور معروف بلڈر عارف جیوا کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہترین پیکیج ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس پیکیج پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے۔ اس میں سرکاری شعبہ کی طرف سے کی جانے والی روایتی سستی کی وجہ سے یہ پیکیج ضائع ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلی مرتبہ بینکوں کو پابند کیا ہے کہ وہ پانچ مرلہ پلاٹ پر تعمیر کے لیے پانچ فیصد شرح سود پر قرضے جاری کرے، اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ بینک اس حوالے سے فوری طور پر تمام پروسیجر کا اعلان کرے کیونکہ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو 31 دسمبر 2020 تک کا وقت بہت کم ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہونے ہوں گے۔
عارف جیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ چار لاکھ رہائشی یونٹس کی ضرورت ہے لیکن اس میں ہر سال شارٹ فال دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر بلڈرز کو ون ونڈو کے ساتھ تمام پراسیس مکمل کرنے کی اجازت دی جائے تو پاکستان کے بلڈرز آٹھ لاکھ یونٹس سالانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے حکومت اور عوام کو آسانی ہو سکتی ہے۔
کیا یہ پیکیج مافیاز کے لیے ہے؟
معروف اقتصادی تجزیہ کار سید شاہد حسن کہتے ہیں کہ اس وقت موجودہ حالات میں حکومت کی ترجیح تعلیم اور صحت کا شعبہ ہونا چاہیے۔ اس وقت کرونا کی وجہ سے ملک میں طب کے شعبہ کی اصلیت کھل گئی ہے۔ اس کے لیے اگر ملک بھر میں ضلع کی سطح پر اسپتال نہ سہی، لیکن ڈسپنسریاں کھول دی جاتیں تو تعمیرات کا شعبہ بھی چلتا اور صحت کی سہولت بھی میسر آتی۔ اسی طرح پرائمری اسکول قائم کیے جاتے تو تعمیرات بھی ہوتیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی میسر آتے۔ مکانوں کا نمبر تیسرا تھا لیکن اسے پہلے نمبر پر دیکھا گیا۔
شاہد حسن کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے جیسے کوئی مافیا ہے جو اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے اور بلیک منی کو وائٹ کرنا چاہ رہا ہے۔ حکومت کو ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات ہیں اور اگر اس فیصلہ کے بعد اس بارے میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے کوئی اعتراض آیا تو مشکل ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کے لیے تعمیرات کا شعبہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، لیکن حکومت کی عجلت سے لگتا ہے کہ پراپرٹی مافیا کو بلیک منی کو وائٹ کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی اسکیموں کی مخالف کرنے والی حکومت اس وقت خود ایمنسٹی دے رہی ہے۔
بلڈر عارف جیوا کہتے ہیں کہ اس پیکیج پر درست انداز میں قانون کے مطابق عمل درآمد کرنا ہو گا وگرنہ کل کو یہ پیکیج حکومت کے خلاف ایک بڑا اسکینڈل بھی بن سکتا ہے۔