وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان نے چین کے ساتھ دشت گردی کےخلاف تعاون کو مضبوط کرنے کا عزم کررکھا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ہرشعبے میں گہرے اور دوستان روابط قائم ہیں۔
بدھ کو بیجنگ میں چینی رہنماؤں سے بات چیت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ چینی وزیر خارجہ ینگ جی چی اور وزیراعظم وین جیاباؤ سے ملاقاتوں میں دو طرفہ اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دینے پر بات چیت ہوئی۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے مغربی چینی خطے شنجیانگ میں مسلمان انتہا پسندوں کے حملوں کا الزام پاکستان پر لگائے جانے کی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی چینی عہدے دار کی طرف سے ایسا بیان نہیں دیا گیا اور اس ضمن میں شائع ہونے والی اطلاعات غلط بیانی پر مبنی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ شنجیانگ میں پیش آنے والے واقعات سے پاکستان اور چین کےدرمیان دوستانہ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ کسی بھی عسکری تنظیم کو اپنی کارروائیوں کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجاز ت نہیں دی جائے گی۔’’پاکستان محض اتنا چاہتا ہے کہ دنیا اُن کے ملک کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے کی کوشش کرے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بھاری قیمت پاکستان اور اس کے عوام کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔‘‘
حنا ربانی کھر نے ایک ایسے موقع پر چین کا دور ہ کیا ہے جب صدر آصف علی زرداری اگلے ہفتے شورش زدہ مغربی چینی خطے شنجیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں ایک بین الاقوامی تجارتی میلے میں شرکت کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
اس چینی خطے کی سرحدیں پاکستان کے علاوہ افغانستان، روس، افغانستان اور بعض وسطی ایشائی ریاستوں سے بھی ملتی ہیں۔ چینی حکام کا الزام اہے کہ شن جیانگ کی اقلیتی ایغور آبادی کے حقوق کے لیے لڑنے والے کالعدم عسکری تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجوخطے میں تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں اور مبینہ طور پر جولائی میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملوث عسکریت پسندوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوںمیں دہشت گردی کی تربیت حاصل کی تھی۔
ایک سوال پر کہ کیا کالعدم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کی پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اُن کا ملک اس بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اگر اس تنظیم کے حوالے سے کوئی ایشو ہے تو وہ پہلے ہی واضح کرچکی ہیں کہ پاکستان اس معاملے پر چین کے ساتھ نہ صرف مزید تعاون کے لیے تیار ہے بلکہ وہ پہلے ہی اس کا عملی طور پر مظاہرہ کرچکا ہے۔
ان کا شارہ بظاہر کالعدم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنجگوؤں کی پاکستان میں گرفتاری اور پھر چین کو ان کی حوالگی کی طرف تھا۔ انھوں نے کہا کہ سلامتی کے امور نے چین اور پاکستان کو ایک دوسر ے سے دور کرنے کی بجائے مزید قریب کردیا ہے۔ پاکستانی حکام کا خیا ل ہے کہ چینی خطے شن جیانگ میں متحرک عسکریت پسند ایغور تنظیموں کے لگ بھگ اسی جنگجو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں۔