رسائی کے لنکس

بچوں سے متعلق مناسب قوانین نا ہونے پر تشوہش کا اظہار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کہ موجودہ قوانین طیبہ جیسے بچوں کو بظاہر تحفظ فراہم نہیں کرسکتے ہیں جو ان کے بقول انتہائی تشویش کی بات ہے۔

پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس نے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو درپیش مشکلات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کا شکار بننے والی کم عمر گھریلو ملازمہ کا معاملہ ایک وسیع تر گمبھیر مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس بدھ کو 10 سالہ طیبہ کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئی کہی جسے اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے ایک جج کے گھر پر دوران ملازمت مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کہ موجودہ قوانین طیبہ جیسے بچوں کو بظاہر تحفظ فراہم نہیں کرسکتے ہیں جو ان کے بقول انتہائی تشویش کی بات ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سرگرم کارکن پاکستان میں بچوں کے تحفظ سے متعلق مناسب قوانین نا ہونے کا معاملہ وقتاً فوقتاً اٹھاتے رہتے ہیں تاہم تاحال اس حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'سپارک' سے وابستہ قانون دان انیس جیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں بچوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب قانونی سازی نہیں کی گئی ہے۔

"یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے، یقیناً بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے پاکستان کی آبادی کا نصف سے بھی زیادہ ہیں۔۔۔۔۔اور اس کے باوجود نا تو کوئی وزارت ہے جو بچوں کے حقوق کا تحفظ کر سکے اور نا کوئی کمشین ہے۔"

انیس جیلانی نے کہا کہ مشقت کرنے والے بچے ایک غیر صحت مند ماحول میں کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کو اجرت بھی بہت ہی کم دی جاتی ہے۔

"یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جو بچے کام کر رہے ان کو جو اجرت ملتی ہیں اس سے وہ اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت ان کی مدد کر سکتی ہے ۔۔۔۔یہ معاملہ صرف سیاسی عزم کا ہے کیونکہ بچے ووٹ نہیں ڈال سکتے اس لیے حکومت ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔"

بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 10 سے 14 سال کے بچوں کی 13 فیصد تعداد ایسی ہے جو کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے لگ بھگ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں میں لانے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG