پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں پولیس کے تفتیشی معیار کا انحطاط ، نظام میں خامیوں اور نچلی سطح پر تعاون کی کمی کے باعث عدالتوں میں ملزمان پر جرم ثابت ہونے کی کم شرح باعث تشویش ہے اس لیے شفاف اور فوری انصاف کے لیے ان خامیوں پر قابو پاکر تحقیقات کے معیار کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات انھوں نے اتوار کو کراچی میں دو روزہ جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی روز اپنے خطاب میں کہی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹس ، استغاثہ ، پولیس اور جیل سے ملنے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کم از کم چالیس فیصد مقدمات میں پولیس عدالت میں وقت پر چالان جمع نہیں کراتی اور نہ ہی ملزموں کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ملزموں کو عدالت میں پیش کر بھی دیا جائے تو گواہوں کو عدالت میں لانے سے متعلق اقدامات نہیں کیے جاتے۔اس کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے ، وہ رہا ہوجاتے ہیں اور بدنامی عدالت کے حصے میں آتی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں تحقیقات کا معیار دن بدن خراب ہوتا جارہا ہے اور یہی وجہ عدالتوں کی کارکردگی کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ کسی قسم کا اثرو رسوخ تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کر رہا ہے یا پھر کسی اور وجہ کے باعث یہ ادارے تفتیش مکمل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں پولیس کے نظام میں سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے جہاں ان اداروں کی کارکردگی کو نقصان پہنچتا ہے وہاں وہیں تحفظ نہ ہونے کے باعث بیشتر گواہان عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ پولیس اور تفتیشی ادارے بالخصوص سنگین جرائم سے متعلق مقدمات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان کے بقول اگرچہ وسائل کم ہیں لیکن انصاف کے معیار اور مہارت کے حصول پر کوئی حد نافذ نہیں کی جاسکتی۔