پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ اگر بغیر اجازت اور واضح ایجنڈے کے تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی کوشش کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جلسہ یا سیاسی طاقت کے مظاہرے کی اجازت تو دی جائے گی لیکن اگر اس کی آڑ میں دھاوا بولنے کی کوشش کی گئی تو چوہدری نثار کے بقول حکومت اس سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
’’تحریک انصاف کی قیادت اگر وہی ہر للکارنے والی پالیسی اپنائے گی، یہاں بغیر اجازت کے دھاوا بولنے کی کوشش کرے گی تو 30 (نومبر) سے بہت پہلے قانون حرکت میں آئے گا۔‘‘
حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 30 نومبر کو وفاقی دارالحکومت میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
عمران خان 14 اگست سے حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں اور اُن کا پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا اب بھی جاری ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نے کہا کہ حکومت قانون کی عمل داری سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ آئندہ دو روز میں تحریک انصاف سے رابطہ کر کے جلسے کے حوالے سے اُن سے معلومات حاصل کرے گی۔
’’تحریک انصاف کو پہلے واضح طور پر ضلعی انتظامیہ کو ہی نہیں، بلکہ پوری قوم کے سامنے اپنا ایجنڈا واضح کرنا ہو گا۔۔۔۔ اُنھیں نا صرف حکومت اجازت دے گی بلکہ سکیورٹی اور دیگر معاملات میں حکومت اُن کی مکمل معاونت کرے گی۔‘‘
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اگر سرکاری عمارتوں کے تحفظ کے لیے فوج کو دوبارہ واپس بلانا پڑا تو وہ بھی کیا جائے گا۔
’’شاہراہیں روکنے کا تماشا ختم ہونا چاہیئے، حکومتی اداروں پر دھاوا بولنے کا تماشا ختم ہونا چاہیئے۔ حکومت وقت کو بلیک میل کرنے کا یہ تماشا ختم ہونا چاہیئے۔‘‘
اُدھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ اُن کی جماعت 30 نومبر کو اسلام آباد میں ہر صورت جلسہ کرے گی۔
’’لوگوں نے آنا ہے، کیوں کہ لوگ فیصلہ کر بیٹھیں ہیں کہ جو ہم نے جلسوں میں دیکھا ہے کہ اب وہ اس نظام کو مانتے نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بے فکر ہو کر آنا، جدھر روکیں اُدھر مقابلہ کریں گے کیوں کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے۔‘‘
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں آئی۔ اسی الزام پر وہ وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
لیکن حکومت نا صرف تحریک انصاف کے الزامات کی مسلسل تردید کرتی آئی ہے بلکہ وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے عدالت عظمیٰ کو ایک خط بھی لکھ رکھا ہے۔