اسلام آباد —
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے اس میں ترامیم کے مسودے کی منظوری دی ہے۔
کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت جمعہ کو اسلام آباد میں ہوا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق قانونی مسودے میں دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات اور مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
ان میں دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹانے، گواہوں اور استغاثہ کے وکلا کو مکمل تحفظ کی فراہمی اور تحقیقات کے عمل میں خفیہ اور عسکری اداروں کی معاونت جیسے معاملات شامل ہیں۔
تجویز کردہ ترامیم میں نیم فوجی سکیورٹی فورس پاکستان رینجرز کے اختیارات میں اضافہ بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ کراچی میں جاری خون ریز بد امنی کی لہر کو روکنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکموتوں نے مل کر رینجرزر کی سربراہی میں آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
مجوزہ ترامیم کو قانوں کا حصہ بنانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ان کی منظوری ضروری ہے، اور حکومت نے مسودے کو پارلیمان میں پیش کرنے سے متعلق کسی تاریخ کا فوری طور پر اعلان نہیں کیا ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں اور قانونِ نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے کے سلسلے میں گزشتہ کئی ہفتوں سے متعلقہ فریقوں سے رابطے میں رہے، جس دوران سول و عسکری انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کے علاوہ سیاسی قائدین سے مشاورت بھی کی گئی۔
پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کی زد میں ہے، اور حالیہ برسوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے شکوہ کرتے آئے ہیں کہ قوانین میں سقم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بیشتر مشتبہ دہشت گرد سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترامیم ناگزیر ہیں۔
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ مجوزہ خصوصی سکیورٹی فورس کی تشکیل صوبوں اور شہروں کی سطح پر کی جائے۔
’’ججوں اور گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اُن کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھنے کی ضرورت ہے، یہ ایسے قوانین ہیں، تجربے ہیں جو کہ دنیا کے باقی ملکوں میں بھی ہو چکے ہیں۔‘‘
سابق سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ صورت حال میں بہتری کے لیے قوانین پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
گزشتہ ماہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے دہشت گردی سے متعلق حکومت کی مجوزہ پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مختلف اداروں کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی خفیہ معلومات کے جائزے اور ان پر ضروری، فوری اقدامات کے لیے ’’جوائنٹ انٹیلی جنس سکریٹیریٹ‘ کے نام سے ایک مشترکہ مرکز قائم کیا جا رہا ہے، جہاں اُن کے بقول تجربہ کار افراد سول و عسکری خفیہ اداروں کی معلومات کا جائزہ لیں گے۔
ساتھ ہی اُنھوں نے خصوصی سکیورٹی فورس کی تشکیل کے منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا۔
کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت جمعہ کو اسلام آباد میں ہوا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق قانونی مسودے میں دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات اور مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
ان میں دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹانے، گواہوں اور استغاثہ کے وکلا کو مکمل تحفظ کی فراہمی اور تحقیقات کے عمل میں خفیہ اور عسکری اداروں کی معاونت جیسے معاملات شامل ہیں۔
تجویز کردہ ترامیم میں نیم فوجی سکیورٹی فورس پاکستان رینجرز کے اختیارات میں اضافہ بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ کراچی میں جاری خون ریز بد امنی کی لہر کو روکنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکموتوں نے مل کر رینجرزر کی سربراہی میں آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
مجوزہ ترامیم کو قانوں کا حصہ بنانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ان کی منظوری ضروری ہے، اور حکومت نے مسودے کو پارلیمان میں پیش کرنے سے متعلق کسی تاریخ کا فوری طور پر اعلان نہیں کیا ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں اور قانونِ نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے کے سلسلے میں گزشتہ کئی ہفتوں سے متعلقہ فریقوں سے رابطے میں رہے، جس دوران سول و عسکری انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کے علاوہ سیاسی قائدین سے مشاورت بھی کی گئی۔
پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کی زد میں ہے، اور حالیہ برسوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے شکوہ کرتے آئے ہیں کہ قوانین میں سقم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بیشتر مشتبہ دہشت گرد سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں ترامیم ناگزیر ہیں۔
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ مجوزہ خصوصی سکیورٹی فورس کی تشکیل صوبوں اور شہروں کی سطح پر کی جائے۔
’’ججوں اور گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اُن کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھنے کی ضرورت ہے، یہ ایسے قوانین ہیں، تجربے ہیں جو کہ دنیا کے باقی ملکوں میں بھی ہو چکے ہیں۔‘‘
سابق سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ صورت حال میں بہتری کے لیے قوانین پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
گزشتہ ماہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے دہشت گردی سے متعلق حکومت کی مجوزہ پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مختلف اداروں کی جانب سے اکھٹی کی جانے والی خفیہ معلومات کے جائزے اور ان پر ضروری، فوری اقدامات کے لیے ’’جوائنٹ انٹیلی جنس سکریٹیریٹ‘ کے نام سے ایک مشترکہ مرکز قائم کیا جا رہا ہے، جہاں اُن کے بقول تجربہ کار افراد سول و عسکری خفیہ اداروں کی معلومات کا جائزہ لیں گے۔
ساتھ ہی اُنھوں نے خصوصی سکیورٹی فورس کی تشکیل کے منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا۔