پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت آئندہ مالی سال کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے 2960 ارب روپے کے بجٹ کو عوام دوست قرار دے کر اس میں تجویز کردہ اقدامات کا دفاع کر رہی ہے۔
لیکن عام آدمی، کاروباری برادری حتیٰ کہ تنخواہ دار طبقے نے بجٹ کو اعداد و شمار کا ہیر پھیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں توقع تھی کہ موجود حکومت اپنے دور اقتدار میں پیش کیے جانے والے پانچویں بجٹ میں عام آدمی کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے قابل عمل اقدامات کا اعلان کرے گی لیکن ان کے بقول ایسا نہیں ہوا۔
یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے ایک روز بعد وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ہفتہ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حکومت نے کوشش کی ہے کہ اس بجٹ کا مقصد عالمی کساد بازاری کے اثرات سے عوام کو محفوظ رکھتے ہوئے معاشی ترقی کی رفتار اور شرح نمو کو برقرار رکھا جائے۔
حفیظ شیخ نے کہا کہ ٹیکس وصولیوں کے نظام کو بہتر بنانے کے علاوہ خود انحصاری کو بڑھایا جائے گا اور کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے پر زور دیا جائے گا۔ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے جو امیر طبقے ہیں اور ٹیکس دینا نہیں چاہتے ان پر ٹیکس کا دائر بڑھا جائے۔‘‘
حفیظ شیخ نے کہا کہ 14 لاکھ ٹیکس دہندگان کے لیے واجبات کی ادائیگی کو سہل بنایا گیا ہے اور انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد ساڑھے تین لاکھ سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی گئی ہے جس سے 33 ہزار روپے ماہانہ آمدن والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
لیکن انھوں نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے حکومت ادھار کم لے گی۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی خامیوں کو دور کر کے انتظامی معاملات میں بہتری لائے۔اُنھوں نے کہا کہ اگر نوٹ چھاپ کر خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے مہنگائی مزید بڑھے گی جس سے براہ راست عام آدمی متاثر ہو گا۔
بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینش میں 20 فیصد ایڈہاک الاؤنس بھی تجویز کیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ اقتصادی حالات میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ہیں۔
لیکن کراچی اور اسلام آباد میں عام لوگوں سے پوچھی گئی رائے میں اکثریت نے بجٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں عوام کے لیے کوئی حقیقی ریلیف نہیں ہے اور مہنگائی لے بوجھ تلے دبے لوگوں کی پریشانیاں مزید بڑھیں گی۔‘‘
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بجٹ کاروباری طبقے کے لیے بھی کوئی خوشخبری لے کر نہیں آیا’’یہ عوامی اور جمہوری بجٹ کے ڈنکے بجانے والوں کے ہاتھوں بارہا اس قسم کے بجٹ سامنے آئے ہیں جس میں سوائے سیاسی پنتروں، لفظی جادوگری اور خوشنما مستقبل کے ، غربت کے خاتمے کے ایسے دل فریب دعوے سامنے آتے ہیں جو کبھی بھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے۔‘‘
بجلی اور گیس کی قلت کے باعث پہلے سے پریشان عوام کو سی این جی کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے نے مزید مضطرب کردیا ہے اور ایسے میں سی این جی سیکٹر کے سرمایہ کاروں نے قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام اس صنعت کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔
آل پاکستان سی این جی پمپس اوننرز ایسوسی ایشن کے چیئر مین غیاث پراچہ کہتے ہیں۔’’ سی این جی سیکٹر ختم ہوجائے گا، دنیا کا جو سب سے بڑا سی این جی کا یوزر ہے وہ اب دنیا میں سب سے مہنگا ٹیرف دے گا اور پبلک اس کو برداشت نہیں کرسکے گی، آپ (حکومت) اس کو حقیقت پر مبنی بنائیں یا واپس لیں۔‘‘
وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ حکومت توانائی کے بحران سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔’’یہ حکومت عوام کے ووٹوں سے آئی ہے اور آئندہ بھی ہمیں عوام کے پاس جانا ہے ہم تو کوئی اور سہارے والے نہیں لہذا عوام کے غصے اور تکلیف کا اندازہ ہے، ہم نے طویل المدت اور قلیل المدت منصوبے شروع کیے ہیں۔‘‘
پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران پر وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ترجیحی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں اور آئندہ مالی سال کے دوران اس مقصد کے لیے 183ارب روپے رکھے گئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری اخراجات نہیں بڑھائے گئے ہیں اور عوامی فلاح کے منصوبے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو پچاس ارب روپے سے بڑھا کر ستر ارب روپے کر دیا گیا ہے تاکہ غریب افراد کی براہ راست مالی معاونت کی جا سکے۔