کوئٹہ —
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر، خصوصاً کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی یعنی بی ایل اے، کی سرگرمیوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بتدریج اضافہ یہاں جاری بد امنی کی بڑی وجہ بنا ہے۔
حالیہ ادوار میں قومی و صوبائی سطح پر بر سرِ اقتدار آنے والی جماعتیں ان عناصر کو تشدد کی راہ ترک کرکے سیاسی دھارے میں شمولیت کی پیش کش کرتی آئی ہیں، تاہم اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
بلوچ عوام کے دیرینہ تحفظات کی شدت میں کمی لانے کی کوشش میں 11 مئی
کے عام انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے علاقائی جماعت کے رہنما ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کو چنا گیا، جو یہ موقف دہراتے آئے ہیں کہ بلوچ قیادت کو ماضی کی تلخیاں بھلا کر صوبے میں امن و ترقی کی نئی شروعات کرنا ہوں گی۔
عبد المالک بلوچ اپنی کوششوں کے سلسلے میں دیگر مقامی قائدین کے ہمراہ ان دنوں لندن کا دورہ کر رہے ہیں، جہاں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے بی ایل اے کے راہنما حربیار مری سے اُن کی ملاقات کا عندیہ دیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو سیاسی و دیگر مسائل کے مذاکراتی حل کے لیے تمام ضروری اقدامات کا اختیار دیا گیا ہے اور اُن کا دورہِ لندن اس سلسلے کی ہی کڑی ہے۔
’’ہماری کوشش ہے کہ وہ سیاسی لوگ جو اس وقت پاکستان سے اپنی بے زاری کی بات کر رہے ہیں، علیحدگی کی بات کر رہے ہیں اُن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ آ کر میز پر بیٹھیں اور اپنے سیاسی مسائل، معاملات کو بیٹھ کر حل کرنے میں ہماری مدد کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب (وزیرِ اعلیٰ) کوئی نا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔‘‘
جان محمد بُلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتِ حال سابقہ دورِ حکومت کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے، جس کی وجوہات میں سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور ماضی میں بد امنی کے باعث ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کرنے والے بگٹی خاندان کے کچھ افراد کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد کاری میں کامیابی ہے۔
’’حکومت کی کوشش ہے کہ ہجرت کرنے والے تمام لوگوں کی اپنے اپنے علاقوں میں بحالی کی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ حربیار مری کی تنظیم بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر متواتر مہلک حملوں کے علاوہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے منسوب زیارت ریزیڈنسی پر جون میں ہوئے حملے کی بھی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
جب کہ اگست 2006 میں فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے بلوچ قوم پرست سردار نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی پر بھی بلوچستان میں خون ریز شورش کو ہوا دینے کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ براہمداغ حالیہ برسوں کے دوران پہلے افغانستان میں روپوش رہے اور بعد ازاں اُنھوں نے سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔
بلوچ سیاسی قائدین کا طویل عرصہ سے شکوہ رہا ہے کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اور گیس سمیت متعدد قدرتی وسائل کا اہم ذریعہ ہونے کے باوجود بلوچستان کئی دہائیوں سے عدم توجہی کا شکار رہا، جس نے یہاں کے عوام کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے۔
قوم پرست بلوچ جماعتیں پہلے سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور مالیاتی وسائل کی فراہمی کے مطالبات کرتی آئی ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد خاطر خواہ اختیارات کی صوبائی سطح پر منتقلی اور قومی وسائل کی تقسیم میں رد و بدل کے بعد معاملات میں خاصی بہتری آئی ہے۔
یہ جماعتیں صوبے میں سیکورٹی اداروں کے کردار کے بارے میں بھی شدید تحفظات رکھتی ہیں، اور ان میں سے بعض کا دعویٰ ہے کہ صوبائی معاملات میں فوج کا اثر و رسوخ تاحال برقرار ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بلوچ قوم پرستوں کو فوج اور اس کے زیرِ انتظام اداروں کی جانب سے جبری گمشدگی اور ہلاکت خیز تشدد جیسے اقدامات کا سامنا ہے، جس نے صورتِ حال کو انتہائی گمبھیر بنا رکھا ہے۔ فوج ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روان ماہ سوئی کے علاقے میں ایک تقریب کے دوران واضح کیا کہ فوج بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں کر رہی اور اس نے تعلیم و ترقی اور ملی یکجہتی سے متعلق کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
’’ایک مضبوط اور خوشحال بلوچستان ہی پاکستان کی مضبوطی کا ضامن ہے ... بلوچستان کی ترقی اصل میں پاکستان کی ترقی ہے۔ پاکستان فوج اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار تبدہی سے ادا کرتی رہے گی۔‘‘
حالیہ ادوار میں قومی و صوبائی سطح پر بر سرِ اقتدار آنے والی جماعتیں ان عناصر کو تشدد کی راہ ترک کرکے سیاسی دھارے میں شمولیت کی پیش کش کرتی آئی ہیں، تاہم اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
بلوچ عوام کے دیرینہ تحفظات کی شدت میں کمی لانے کی کوشش میں 11 مئی
کے عام انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے علاقائی جماعت کے رہنما ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کو چنا گیا، جو یہ موقف دہراتے آئے ہیں کہ بلوچ قیادت کو ماضی کی تلخیاں بھلا کر صوبے میں امن و ترقی کی نئی شروعات کرنا ہوں گی۔
عبد المالک بلوچ اپنی کوششوں کے سلسلے میں دیگر مقامی قائدین کے ہمراہ ان دنوں لندن کا دورہ کر رہے ہیں، جہاں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے بی ایل اے کے راہنما حربیار مری سے اُن کی ملاقات کا عندیہ دیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو سیاسی و دیگر مسائل کے مذاکراتی حل کے لیے تمام ضروری اقدامات کا اختیار دیا گیا ہے اور اُن کا دورہِ لندن اس سلسلے کی ہی کڑی ہے۔
’’ہماری کوشش ہے کہ وہ سیاسی لوگ جو اس وقت پاکستان سے اپنی بے زاری کی بات کر رہے ہیں، علیحدگی کی بات کر رہے ہیں اُن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ آ کر میز پر بیٹھیں اور اپنے سیاسی مسائل، معاملات کو بیٹھ کر حل کرنے میں ہماری مدد کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب (وزیرِ اعلیٰ) کوئی نا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔‘‘
جان محمد بُلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتِ حال سابقہ دورِ حکومت کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے، جس کی وجوہات میں سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور ماضی میں بد امنی کے باعث ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کرنے والے بگٹی خاندان کے کچھ افراد کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد کاری میں کامیابی ہے۔
’’حکومت کی کوشش ہے کہ ہجرت کرنے والے تمام لوگوں کی اپنے اپنے علاقوں میں بحالی کی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ حربیار مری کی تنظیم بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر متواتر مہلک حملوں کے علاوہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے منسوب زیارت ریزیڈنسی پر جون میں ہوئے حملے کی بھی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
جب کہ اگست 2006 میں فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے بلوچ قوم پرست سردار نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی پر بھی بلوچستان میں خون ریز شورش کو ہوا دینے کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ براہمداغ حالیہ برسوں کے دوران پہلے افغانستان میں روپوش رہے اور بعد ازاں اُنھوں نے سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔
بلوچ سیاسی قائدین کا طویل عرصہ سے شکوہ رہا ہے کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اور گیس سمیت متعدد قدرتی وسائل کا اہم ذریعہ ہونے کے باوجود بلوچستان کئی دہائیوں سے عدم توجہی کا شکار رہا، جس نے یہاں کے عوام کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے۔
قوم پرست بلوچ جماعتیں پہلے سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور مالیاتی وسائل کی فراہمی کے مطالبات کرتی آئی ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد خاطر خواہ اختیارات کی صوبائی سطح پر منتقلی اور قومی وسائل کی تقسیم میں رد و بدل کے بعد معاملات میں خاصی بہتری آئی ہے۔
یہ جماعتیں صوبے میں سیکورٹی اداروں کے کردار کے بارے میں بھی شدید تحفظات رکھتی ہیں، اور ان میں سے بعض کا دعویٰ ہے کہ صوبائی معاملات میں فوج کا اثر و رسوخ تاحال برقرار ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بلوچ قوم پرستوں کو فوج اور اس کے زیرِ انتظام اداروں کی جانب سے جبری گمشدگی اور ہلاکت خیز تشدد جیسے اقدامات کا سامنا ہے، جس نے صورتِ حال کو انتہائی گمبھیر بنا رکھا ہے۔ فوج ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روان ماہ سوئی کے علاقے میں ایک تقریب کے دوران واضح کیا کہ فوج بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں کر رہی اور اس نے تعلیم و ترقی اور ملی یکجہتی سے متعلق کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
’’ایک مضبوط اور خوشحال بلوچستان ہی پاکستان کی مضبوطی کا ضامن ہے ... بلوچستان کی ترقی اصل میں پاکستان کی ترقی ہے۔ پاکستان فوج اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار تبدہی سے ادا کرتی رہے گی۔‘‘