کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں تشدد کے تازہ واقعے میں سکیورٹی اہلکار سمیت 14 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ ضلع بولان کے علاقے مچھ میں نامعلوم افراد نے بلوچستان سے پنجاب جانے والی مسافر کوچز اور ٹرکوں کے ایک قافلے کو روکا اور ان میں سوار افراد کے شناختی کارڈ چیک کیے۔
بعد ازاں حملہ آور 13 مسافروں اور ان گاڑیوں کی حفاظت پر معمور سات لیویز اہلکاروں کو اغوا کرکے لے گئے تاہم اہلکاروں کو کچھ ہی دیر بعد چھوڑ دیا مگر پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں اور دو ٹرک ڈرائیوروں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ مرنے والوں میں پاکستانی فوج کا ایک اہلکار بھی شامل ہے۔
ضلع بولان کے ڈپٹی کمشنر عبدالوحید شاہ نے وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور سکیورٹی فورسز کی وردیوں میں ملبوس تھے جنہوں نے کوئٹہ سکھر شاہراہ کو بند کرکے وہاں ان بسوں اور ٹرکوں کو روک رکھا تھا۔
’’مچھ اور ڈاڈر کی طرف سے روڈ کو بلاک کیا ہوا تھا۔ اس علاقے کو گشتری نالہ کہتے ہیں اور یہ ایک وسیع علاقہ ہے۔ ایف سی نے جب دیکھا کہ روڈ بند ہے تو اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہی تھی کہ وہاں لیویز کے ساتھ رابطہ ہو جائے تو اس دوران ایف سی کو جو گاڑی وہاں داخل ہوئی تو اس پر پہاڑ پر گھات لگائے شدت پسندوں نے راکٹ داغا جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا اور ایک اہلکار بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ علاقے میں حملہ آوروں کی تلاش کے لیے سکیورٹی فورسز کارروائی میں مصروف ہیں اور جلد ہی اس ضمن میں پیش رفت کی توقع ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ کوئٹہ سے پنجاب جانے والی مسافر بسوں کو ضلع بولان سے کی حدود تک لیویز اہلکاروں کی حفاظت میں روانہ کیا جاتا ہے۔
اس واقعے سے قبل اسی علاقے میں پاکستانی فضائیہ کے لئے ایندھن لے جانے والے چار آئل ٹینکروں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے ضلع بولان میں اس سے پہلے بھی پنجاب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور شیعہ زائرین کی بسوں پر مہلک حملے کئے گئے ہیں جن میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کو چز کے ذریعے سفر کرنے والے زائرین اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تحفظ کے لئے مو ثر اقدامات کیے گئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ ضلع بولان کے علاقے مچھ میں نامعلوم افراد نے بلوچستان سے پنجاب جانے والی مسافر کوچز اور ٹرکوں کے ایک قافلے کو روکا اور ان میں سوار افراد کے شناختی کارڈ چیک کیے۔
بعد ازاں حملہ آور 13 مسافروں اور ان گاڑیوں کی حفاظت پر معمور سات لیویز اہلکاروں کو اغوا کرکے لے گئے تاہم اہلکاروں کو کچھ ہی دیر بعد چھوڑ دیا مگر پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں اور دو ٹرک ڈرائیوروں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ مرنے والوں میں پاکستانی فوج کا ایک اہلکار بھی شامل ہے۔
ضلع بولان کے ڈپٹی کمشنر عبدالوحید شاہ نے وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور سکیورٹی فورسز کی وردیوں میں ملبوس تھے جنہوں نے کوئٹہ سکھر شاہراہ کو بند کرکے وہاں ان بسوں اور ٹرکوں کو روک رکھا تھا۔
’’مچھ اور ڈاڈر کی طرف سے روڈ کو بلاک کیا ہوا تھا۔ اس علاقے کو گشتری نالہ کہتے ہیں اور یہ ایک وسیع علاقہ ہے۔ ایف سی نے جب دیکھا کہ روڈ بند ہے تو اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہی تھی کہ وہاں لیویز کے ساتھ رابطہ ہو جائے تو اس دوران ایف سی کو جو گاڑی وہاں داخل ہوئی تو اس پر پہاڑ پر گھات لگائے شدت پسندوں نے راکٹ داغا جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا اور ایک اہلکار بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ علاقے میں حملہ آوروں کی تلاش کے لیے سکیورٹی فورسز کارروائی میں مصروف ہیں اور جلد ہی اس ضمن میں پیش رفت کی توقع ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ کوئٹہ سے پنجاب جانے والی مسافر بسوں کو ضلع بولان سے کی حدود تک لیویز اہلکاروں کی حفاظت میں روانہ کیا جاتا ہے۔
اس واقعے سے قبل اسی علاقے میں پاکستانی فضائیہ کے لئے ایندھن لے جانے والے چار آئل ٹینکروں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے ضلع بولان میں اس سے پہلے بھی پنجاب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور شیعہ زائرین کی بسوں پر مہلک حملے کئے گئے ہیں جن میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کو چز کے ذریعے سفر کرنے والے زائرین اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تحفظ کے لئے مو ثر اقدامات کیے گئے ہیں۔