کو ئٹہ —
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پاکستان کے پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان کی آبادی تو ملک کے باقی صوبوں کی نسبت سب سے کم ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں خواتین کے حقوق کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے۔
بلوچستان اسمبلی نے حال ہی میں خواتین پر تشدد کے خلاف ایک بل تو منظور کیا لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس کا اطلاق صوبے کے قبائلی علاقوں پر نہ ہونے کی شق بھی اس بل میں شامل ہے۔
صوبے کے تیس میں سے دس اضلاع ایسے قبائلی علاقوں پر مشتمل ہیں جہاں آج بھی قبائلی سرداری نظام ہی مضبوط شکل میں موجود ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ان قبائلی علاقوں میں کسی بھی تنظیم کو کام کرنے کی اجازت نہیں اسی لیے یہاں ہونے والے واقعات کم ہی منظر عام پر آتے ہیں۔
تنظیم کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال خواتین پر تشدد کے 180 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری، اغوا اور خودکشی کے واقعات بھی شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تنظیم کی ایک رکن سما جاوید کا کہنا تھا کہ قانون پر موثر عملدرآمد کے بغیر خواتین کے حقوق کا تحفظ تقریباً ناممکن ہے۔
’’جب کوئی خاتون اپنا کیس لے کر نکلتی ہے تو اسے جان کا خطرہ ہوتا ہے تو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے ایسی اقدامات کرتے نظر نہیں آتے کہ جس سے اس خاتون کا تحفظ یقینی ہو۔‘‘
صوبے کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی یاسمین لہڑی کے مطابق خواتین پر ہونے والے تشدد کی سب سے بڑی وجہ فیصلہ سازی میں عورتوں کی نمائندگی کا نہ ہونا ہے۔
’’چاہے ہم کوئی فیملی یونٹ دیکھ لیں، محلے کی سطح پر دیکھ لیں، سوسائٹی کو دیکھ لیں یا جو پورا سیاسی نظام ہے یا طاقت کا ڈھانچہ ہے اس میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ خواتین کہیں نظر نہیں آتیں۔ ۔ ۔ تو حکومت کی یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں صوبے کے بعض علاقوں سے کم سن بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں جس پر صوبائی حکومت نے ان واقعات کی مکمل تحقیقات اور ان کے تدارک کے لیے اقدامات کو یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔
بلوچستان اسمبلی نے حال ہی میں خواتین پر تشدد کے خلاف ایک بل تو منظور کیا لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس کا اطلاق صوبے کے قبائلی علاقوں پر نہ ہونے کی شق بھی اس بل میں شامل ہے۔
صوبے کے تیس میں سے دس اضلاع ایسے قبائلی علاقوں پر مشتمل ہیں جہاں آج بھی قبائلی سرداری نظام ہی مضبوط شکل میں موجود ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ان قبائلی علاقوں میں کسی بھی تنظیم کو کام کرنے کی اجازت نہیں اسی لیے یہاں ہونے والے واقعات کم ہی منظر عام پر آتے ہیں۔
تنظیم کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال خواتین پر تشدد کے 180 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری، اغوا اور خودکشی کے واقعات بھی شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تنظیم کی ایک رکن سما جاوید کا کہنا تھا کہ قانون پر موثر عملدرآمد کے بغیر خواتین کے حقوق کا تحفظ تقریباً ناممکن ہے۔
’’جب کوئی خاتون اپنا کیس لے کر نکلتی ہے تو اسے جان کا خطرہ ہوتا ہے تو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے ایسی اقدامات کرتے نظر نہیں آتے کہ جس سے اس خاتون کا تحفظ یقینی ہو۔‘‘
صوبے کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی یاسمین لہڑی کے مطابق خواتین پر ہونے والے تشدد کی سب سے بڑی وجہ فیصلہ سازی میں عورتوں کی نمائندگی کا نہ ہونا ہے۔
’’چاہے ہم کوئی فیملی یونٹ دیکھ لیں، محلے کی سطح پر دیکھ لیں، سوسائٹی کو دیکھ لیں یا جو پورا سیاسی نظام ہے یا طاقت کا ڈھانچہ ہے اس میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ خواتین کہیں نظر نہیں آتیں۔ ۔ ۔ تو حکومت کی یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘
حالیہ مہینوں میں صوبے کے بعض علاقوں سے کم سن بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں جس پر صوبائی حکومت نے ان واقعات کی مکمل تحقیقات اور ان کے تدارک کے لیے اقدامات کو یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔