پاکستان میں سول ایوی ایشن حکام نے نجی فضائی کمپنیوں کے زیرِاستعمال مسافر طیاروں کے تفصیلی معائنے کا عمل پیر سے شروع کر دیا ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان پرویز جارج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں اس وقت تین نجی فضائی کمپنیاں ہیں جن کے فضائی بیڑے میں شامل تمام جہازوں کا تفصیلی معائنہ کیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ پہلے مرحلے میں بھوجا ائیر لائن کے طیاروں کا معائنہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد دیگر دو نجی فضائی کمپنیوں کو بھی اس عمل سے گزرنا ہو گا۔
’’یہ بڑی تفصیلی انسپیکشن ہوتی ہے اور تفصیلی معائنے کے بعد جہاز فضائی کمپنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد مرحلہ وار تمام جہازوں کی فنی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ طیاروں کے معائنے کے فیصلے کا مقصد مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنانا اور ان کے اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ ’’ہمارا اولین مقصد محفوظ فضائی سفر ہے اور اس پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔‘‘
پرویز جارج نے اس بارے میں قیاس آرائی سے گریز کیا کہ ملک میں سرگرم تینوں نجی ایئر لائن کمپنیوں کے جہازوں کے معائنے کا عمل کب تک مکمل ہو سکے گا۔ ’’یہ کہنا مشکل ہوگا کہ معائنہ کاروں کو ہر طیارے اور ان میں نصب نظام کی جانچ پڑتال کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ نجی ایئرلائنز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی اندرون اور بیرون ملک پروازوں کے شیڈول میں مناسب رد و بدل کر لیں تاکہ مسافروں کو اس عمل کے دوران کوئی دقت پیش نہ آئے۔ پرویز جارج نے مزید کہا کہ قومی ایئرلائن ’پی آئی اے‘ کے طیارے اس میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ چند ماہ قبل اس عمل سے گزر چکے ہیں۔
ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ نجی فضائی کمپنیوں کی پروازیں مکمل طور پر بند نہیں کی گئی ہیں۔
جمعہ کی شام کراچی سے اسلام آباد پہنچنے والا بھوجا ائیر کا بوئنگ 737 ہوائی اڈے سے محض چند کلومیڑ دور گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس میں سوار 127 افراد ہلاک ہو گئے۔
اس مہلک حادثے کے دو روز بعد اتوار کو کراچی میں لینڈنگ کے دوران شاہین انٹرنیشنل کے زیر استعمال بوئنگ 737 کا ایک ٹائر پھٹ گیا مگر پائلٹ نے طیارے کو باحفاظت ہوائی اڈے پر اتار لیا اور اس میں سوار 172 مسافر محفوظ رہے۔
اس کے چند گھنٹوں پر لاہور ائیر پورٹ پر بھی اسی ائیرلائن کے ایک مسافر طیارے کے فیول ٹینک میں گنجائش سے زائد ایندھن بھرنے کے باعث آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے ایران جانے والی یہ پرواز منسوخ کر دی گئی۔
ان تینوں واقعات کے بعد حکومت نے ملک کی نجی فضائی کمپنوں کے زیر استعمال تمام طیاروں کے مکمل فنی معائنے کا حکم جاری کیا اور پیر سے اس عمل کا آغاز کر دیا ہے۔
ادھر دارالحکومت کے نواحی علاقے میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں مگر حکام نے ابھی تک کسی پیش رفت کی اطلاع نہیں دی ہے۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ کپیٹن مجاہد الاسلام نے پیر کو جائے حادثہ کا جائزہ لینے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے گا۔
’’چاہے وہ تکنیکی پہلو ہو یا موسمی حالات ہر زاویے سے اس معاملے کو پرکھا جائے گا۔‘‘
گزشتہ دو سال کے دوران اسلام آباد کی فضائی حدود میں پیش آنے والا یہ دوسرا حادثہ تھا اس سے قبل جولائی 2010ء میں نجی کمپنی ’ایئر بُلو‘ کا ایک طیارہ وفاقی دارالحکومت میں مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا اور اس میں سوار تمام 152 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں بظاہر ائیر ٹریفک کنٹرول اور پائلٹ کے درمیان رابطے میں ابہام کو جہاز گرنے کی ایک بڑی وجہ بتایا گیا تھا۔
ائیر ٹریفک کنٹرول کے ملازمین کی تنظیم کے ترجمان آصف رسول نے وائس آف امریکہ سے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ عالمی سطحی پر فضائی ٹریفک کو کنڑول کرنے والے ایک اہلکار کو ایک وقت میں تقریباً 26 پروازوں کو معلومات فراہم کرنا ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں ڈیوٹی پر تعینات اہلکار کو بیک وقت اوسطاً 50 پروازوں کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کام کے زائد بوجھ کے علاوہ ائیر ٹریفک کنٹرول کے لیے دستیاب تکینکی سہولتیں بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ ترجمان نے اس تناظر میں فضائی حادثات کے رونما ہونے کے خدشات کا بھی اظہار کیا تھا۔
فضائی ٹریفک کنڑول کی تنظیم کے مطالبات کے بعد حکومت نے ان کی تنخواہوں میں تو اضافہ کر دیا تھا لیکن ان کے محکمہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ابھی تک عملی اقدامات کا اعلان نہیں کیا گیا۔