پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جمعرات کی صبح ہونے والے دو بم حملوں میں کم از کم تین سکیورٹی اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق یہ دھماکے نوشہر قلعہ کے قریب ہوئے۔
سکیورٹی فورسز کا قافلہ بنوں کے قریب شمالی وزیرستان کے علاقے میں واقع اس قلعہ کی طرف جا رہا تھا کہ ان کی گاڑیاں سڑک میں نصب بارودی سرنگوں سے ٹکرا گئیں۔
تاحال کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن علاقے میں موجود شدت پسند اس سے پہلے بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
رواں ماہ ہونے والے ایسے ہی حملوں کے بعد گزشتہ ہفتے سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نشانہ بنایا۔
ان فوجی کارروائیوں میں 80 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے جن میں فوج کے مطابق غیر ملکی جنگجو اور اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل تھے۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن قائم کرنا چاہتی ہے لیکن پرتشدد کارروائیوں کا بھی بھرپور جواب دیا جائے گا۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے حکومتی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کرنے والوں سے بات کی جائے گی اور ہتھیار استعمال کرنے والوں کے ساتھ ان ہی کے انداز میں نمٹا جائے گا۔
"ہم دونوں ہی کام کر رہے ہیں اور دونوں کام ہمیں کرنے چاہئیں۔ جو زبان کا ہتھیار سمجھتے ہیں وہاں زبان کا ہتھیار استعمال کریںگے جو ہتھیار کی زبان سمجھتا ہے وہاں ہتھیار کی زبان استعمال کریں گے دونوں کام ساتھ ساتھ چلیں گے کیونکہ ہمیں پاکستان کو محفوظ بنانا ہے، یہاں امن لانا ہے۔"
افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ ہے۔
یہاں سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کارروائیوں اور شدت پسندوں کے آپسی اختلافات کی وجہ سے علاقے میں حالات شدید کشیدہ ہیں۔
ایک روز قبل ہی طالبان کے ایک اہم رہنما خان سید سجنا نے اپنے گروہ حلقہ محسود کے ہمراہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس علیحدگی کے بعد طالبان کے باہمی اختلافات میں مزید شدت آئے گی جس کا اثر اس علاقے کی صورتحال پر بھی پڑے گا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق یہ دھماکے نوشہر قلعہ کے قریب ہوئے۔
سکیورٹی فورسز کا قافلہ بنوں کے قریب شمالی وزیرستان کے علاقے میں واقع اس قلعہ کی طرف جا رہا تھا کہ ان کی گاڑیاں سڑک میں نصب بارودی سرنگوں سے ٹکرا گئیں۔
تاحال کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن علاقے میں موجود شدت پسند اس سے پہلے بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
رواں ماہ ہونے والے ایسے ہی حملوں کے بعد گزشتہ ہفتے سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نشانہ بنایا۔
ان فوجی کارروائیوں میں 80 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے جن میں فوج کے مطابق غیر ملکی جنگجو اور اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل تھے۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن قائم کرنا چاہتی ہے لیکن پرتشدد کارروائیوں کا بھی بھرپور جواب دیا جائے گا۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے حکومتی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کرنے والوں سے بات کی جائے گی اور ہتھیار استعمال کرنے والوں کے ساتھ ان ہی کے انداز میں نمٹا جائے گا۔
"ہم دونوں ہی کام کر رہے ہیں اور دونوں کام ہمیں کرنے چاہئیں۔ جو زبان کا ہتھیار سمجھتے ہیں وہاں زبان کا ہتھیار استعمال کریںگے جو ہتھیار کی زبان سمجھتا ہے وہاں ہتھیار کی زبان استعمال کریں گے دونوں کام ساتھ ساتھ چلیں گے کیونکہ ہمیں پاکستان کو محفوظ بنانا ہے، یہاں امن لانا ہے۔"
افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان القاعدہ سے منسلک طالبان شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ ہے۔
یہاں سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کارروائیوں اور شدت پسندوں کے آپسی اختلافات کی وجہ سے علاقے میں حالات شدید کشیدہ ہیں۔
ایک روز قبل ہی طالبان کے ایک اہم رہنما خان سید سجنا نے اپنے گروہ حلقہ محسود کے ہمراہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس علیحدگی کے بعد طالبان کے باہمی اختلافات میں مزید شدت آئے گی جس کا اثر اس علاقے کی صورتحال پر بھی پڑے گا۔