رسائی کے لنکس

جماعت اسلامی کے رہنما کا بیان ’توہین آمیز‘ ہے: پاکستان فوج


منور حسن نے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دیا جب کہ بعد ازاں کہا کہ کیونکہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کو شہید نہیں کہا جاتا اس لیے ان کی مدد کرنے والے بھی اس اعزاز کے مستحق نہیں ہو سکتے۔

پاکستان فوج نے ملک کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت کے رہنما کی جانب سے دہشت گردوں کو ’’شہید‘‘ قرار دینے پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’معصوم‘‘ عوام اور فوجیوں کی قربانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر سے اتوار کو دیر گئے جاری کیے گئے بیان میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کے حالیہ بیان کو ’’غیر ذمہ دارانہ اور گمراہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے ان سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا گیا۔

’’منور حسن نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے منطق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ... ہمارے شہداء اور ان کے خاندانوں کو سید منور حسن سے کسی توثیق کی ضرورت نہیں۔‘‘

جماعت اسلامی کے رہنما نے اپنے حالیہ بیان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے القاعدہ سے منسلک پاکستانی شدت پسند کمانڈر حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دیا جب کہ بعد ازاں ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ کیونکہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کو شہید نہیں کہا جاتا اس لیے ان کی مدد کرنے والے بھی اس اعزاز کے مستحق نہیں ہو سکتے۔

(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

اُن کا اشارہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی طرف تھا، جو منور حسن کے خیال میں امریکی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویز حسین نے وائس آف امریکہ سے پیر کو گفتگو میں جماعت اسلامی کے سربراہ کے بیان کی مذمت کی۔

’’جو لوگ مسجدوں اور مدرسوں میں معصوم بچوں، عام شہریوں کو مار رہے ہیں وہ شہید کس طرح ہو سکتے ہیں۔ جو ملک کے لیے جان دے رہا ہے وہ (ہی) شہید ہے۔ ان (سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں) کا جذبہ بلند رہنا چاہیئے۔ وہ ملک کے لیے انشاء اللہ تعالیٰ لڑتے رہیں گے۔‘‘

ادھر لاہور میں جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے پاکستان فوج کے بیان کو ’’سیاسی اور غیر فوجی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج کو سیاست اور جمہوری معاملات میں مداخلت کا حق نہیں اور وہ یہ معاملہ وزیر اعظم کے سامنے اٹھائیں گے۔

’’اس وقت تو مطالبہ یہ ہے کہ نیٹو سپلائیز (کی ترسیل) بند کی جائے۔ ڈرون حملے بند ہونے چاہیئں۔ لیکن خاص مقاصد اور خاص ذہن رکھنے والے گروہ ضمنی بحثوں میں الجھا رہے ہیں۔ پاکستان کو امریکی جنگ سے باہر لانے کے لیے پوری قوم کو یک سو اور یک آواز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

پاکستان فوج ملک کے شمال مغرب میں شدت پسندوں کے خلاف گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے برسرپیکار ہے اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کی کارروئیواں میں اب تک فوجی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔

فوج کی جانب سے کسی سیاسی رہنما کے خلاف ایسا بیان شاذ و نادر ہی سامنے آتا ہے جب کہ بعض بڑی جماعتیں اب بھی دہشت گردی کے خلاف خون ریز جنگ کو امریکہ کی لڑائی گردانتی ہیں۔

جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے اور عمران خان کی جماعت بھی رواں ماہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد احتجاجاً پاکستان کے راستے نیٹو رسد کی ترسیل بند کرنے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ شدت پسندوں نے سوات سے تعلق رکھنے والے کمانڈر مولوی فضل اللہ کو اپنا نیا سربراہ منتخب کیا ہے۔

مبصرین کے مطابق سیاسی جماعتوں کا اس قسم کا موقف عوامی سطح پر اس اہم جنگ سے متعلق ابہام کی وجہ ہے۔

پاکستان فوج کے سابق ترجمان اطہر عباس کہتے ہیں: ’’فوج جب بھی کسی فرنٹ پر برسرپیکار ہوتی ہے اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ معاشرہ، قوم اس کی سپورٹ میں ہے اور اسی جذبے سے وہ آگے بڑھتی ہے۔ تو ایسے بیانات نے بہت زیادہ ابہام پیدا کیا اور فوج کا مورال بھی متاثر ہوا ہے اس لیے یہ رد عمل آیا۔‘‘
XS
SM
MD
LG