بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اتوار کو افغانستان جا رہے ہیں جہاں وہ اعلیٰ قیادت کے ساتھ سلامتی کے دوطرفہ امور اور سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے جیسے معاملات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
دونوں ملکوں کے تعلقات ایک عرصے سے تناؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں جس کی وجوہات میں اسلام آباد اور کابل کے مابین پایا جانے والا عدم اعتماد اور ایک دوسرے سے متعلق شکوک و شہبات شامل ہیں اور اس کشیدگی کو دونوں جانب کے عہدیداروں کی طرف سے آئے روز سامنے آنے والے الزامات نے مزید بڑھاوا دیا۔
گو کہ سرکاری طور پر تو جنرل باجوہ کے دورے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن جمعہ کو دیر گئے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کی تصدیق کی تھی۔
پاکستان اپنے اس پڑوسی ملک میں امن و استحکام کے لیے ہر ممکن تعاون اور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ افغانستان میں امن خود اس کے اپنے مفاد میں ہے۔
توقع ہے کہ جنرل باجوہ اسی موقف کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ افغان فوجیوں اور پولیس کی پاکستان میں تربیت کی پیشکش کو دہرائیں گے اور باہمی حکمت عملی اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات دور کرنے کی ضرورت پر زور دیں گے۔
افغانستان اور امریکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان عسکریت پسند پاکستان کی سرزمین افغانستان میں حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
کابل بھی ایسے الزامات کو رد کرتا آیا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال جنرل باجوہ کے دورہ کابل کو موجودہ صورتحال میں خاصا اہم قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے اس میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والوں سے متعلق بھی غور و خوض ہو۔
"ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے کہا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ اس فہرست کا تبادلہ کریں کیونکہ پاکستان ان کو کہتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان جو ہے وہ وہاں (افغانستان) سے کام کر رہی ہے تو ان کی فہرست کا آپ ہمارے ساتھ تبادلہ کریں تو ہو سکتا ہے اس پر بھی غوروخوض ہو کہ افغانستان کو کس طرح اس میں شامل کیا جائے۔"
افغانستان کے ساتھ تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے لیے جہاں پاکستان نے اپنی جانب مختلف چوکیاں اور قلعے تعمیر کیے ہیں وہیں اس پر باڑ لگانے کا کام بھی جاری ہے جو حکام کے مطابق دو سال میں مکمل ہوگا۔
افغانستان باڑ لگانے کے اس پاکستانی اقدام پر معترض ہے کیونکہ وہ روایتی طور پر اس سرحد کو بین الاقوامی حدبندی تسلیم نہیں کرتا۔