پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے نو مزید 'دہشت گردوں' کی سزائے موت کی توثیق کی ہے۔
پاکستان فوج کی شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی طرف سے پیر کو جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ سزا موت پانے والے یہ افراد دہشت گردی، معصوم شہریوں اور سکیورٹی فورسز کی اہلکاروں کو قتل اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان دہشت گردوں کے قبضے سے ہتھیار اور گولہ و بارود بھی برآمد ہوا تھا اور ان تمام افراد کو فوجی عدالتوں کی طرف سے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
’آئی ایس پی آر‘ کا کہنا ہے کہ ان مجرموں میں ساجد نامی 'دہشت گرد' بھی شامل ہے جس کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے اور اس نے جون 2014 میں پشاور ائیر پورٹ پر پاکستان کی قومی فضائی کمپنی 'پی آئی اے' کے ایک طیارے پر فائرنگ کی تھی، جس میں ایک خاتون مسافر کو ہلاک جب دو دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ دیگر مجرموں میں جاوید خان، فضل حق، فضل رحمن، عمر سعید اور نذیر احمد کو تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان جب کہ زاہد خان، رحمت اور برکت علی کا تعلق عسکریت پسند گروپ 'لشکر اسلام' سے ہے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ تمام افراد عام شہریوں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر حملوں اور انہیں قتل کرنے کے واقعات میں ملوث تھے۔
قبل ازیں بھی جنرل راحیل شریف فوجی عدالتوں کی طرف سے موت کی سزا پانے والوں متعدد مجرموں کی موت کی سزاؤں کی توثیق کر چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظمییں پاکستان کی حکومت سے سزائے موت روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں پر تحفظات کا اظہار بھی کر چکی ہیں۔
انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ''ایچ آر سی پی" کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہا کہ اگرچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ موت کی سزا دینے سے جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے تاہم ان کے بقول حقائق اس کے برعکس ہیں۔
"جن ملکوں میں موت کی سزا ہے پاکستان بھی ان میں شامل ہے ان میں وہ جرائم ختم تو نہیں ہوئے ہیں جن پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس سزا کی وجہ سے ایسے جرائم ہونے کی حوصلہ شکنی ہو گی لیکن حقائق اس موقف درست ثابت نہیں کرتے کہ اس (موت کی سزا) سے ان میں کوئی رکاوٹ پڑی ہے اور جرائم کم ہوتے ہیں۔"
تاہم حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کو گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی و عسکریت پسندی کے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے سخت سزائیں ضروری ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں بھی سزا دینے سے پہلے ملزموں کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دسمبر 2014 میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، اس واقعہ میں 132 طلباء سمیت ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اس دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عائد چھ سالہ پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے موت کی سزا پانے والے مجرموں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ چارسو مجرموں کو سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔