رسائی کے لنکس

جنرل باجوہ کی سینیٹ کے بند کمرہ اجلاس کو بریفنگ


ایوانِ بالا کا اجلاس تقریباً چار گھنٹوں تک جاری رہا جس کے بعد پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں بتایا کہ ایک گھنٹہ بریفنگ کے بعد تین گھنٹوں تک سوال جواب کا سیشن ہوا۔

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اراکین کو بند کمرہ اجلاس میں قومی سلامتی سے متعلق بریفنگ دی ہے۔

منگل کو ہونے والے اس خصوصی اجلاس کے لیے پورے ایوانِ بالا کو ’سینیٹ کمیٹی‘ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

ایوانِ بالا کا اجلاس تقریباً چار گھنٹوں تک جاری رہا جس کے بعد پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں بتایا کہ ایک گھنٹہ بریفنگ کے بعد تین گھنٹوں تک سوال جواب کا سیشن ہوا۔

بغیر کسی وقفے کے جاری رہنے والے اس اجلاس میں آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ملک اور خطے کی سلامتی سے متعلق بریفنگ دی۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ یہ ’ان کیمرا‘ اجلاس تھا اور اصولی طور پر اسے باہر بیان نہیں کیا جا سکتا تاہم وہ اس بارے میں آئندہ چند روز میں تفصیلی بریفنگ دیں گے۔

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھی قانون سازوں کو آگاہ کیا گیا اور ملک کو درپیش خطرات بھی سینیٹ کے سامنے رکھے گئے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو جتنے بھی خطرات ہیں اُن کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا اور جب تک ہم اکٹھے ہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’’اس سے ایک اچھا پیغام باہر گیا ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس کے جتنے بھی ستون ہیں وہ آئین کے مطابق کام کرتے ہیں۔‘‘

بریفنگ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹننٹ جنرل نوید مختار اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کو ان کیمرا اجلاس کے دوران ایک گھنٹے تک بریفنگ دی جس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو لگ بھگ تین گھنٹوں تک جاری رہا۔

پاکستان کے بعض ٹیلی وژن چینلز کا کہنا ہے کہ سینیٹرز کے سوالات ملکی داخلی صورت حال اور خارجہ پالیسی کے متعلق تھے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فوج وہی کردار ادا کر رہی ہے جس کا تعین پاکستان کے آئین اور قانون میں کیا گیا ہے۔ فوج آئین سے ماورا کسی کردار کی طلب گار نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صدارتی نظام سے ملک کمزور ہوتا ہے اور تفریق بڑھتی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ خارجہ پالیسی بنائے ہم اس پر عمل کریں گے۔

جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فوج نے فیض آباد دھرنے والوں کو کھانا فراہم کیا تھا تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔

خارجہ پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 41 مسلم ملکوں کا اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔

سینیٹ اجلاس کی باقاعدہ کارروائی سے قبل جنرل باجوہ نے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے اُن کے چیمبر میں ملاقات کی۔

گزشتہ چھ سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کے سربراہ کی طرف سے قانون سازوں کو اس طرح کی بریفنگ دی گئی۔

اس سے قبل ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی خصوصی فورسز کی کارروائی میں مارے جانے کے بعد مئی 2011ء میں اُس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر احمد شجاع پاشا نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ بند کمرہ اجلاس کو بریفنگ دی تھی۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا اور افغانستان سے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد اسلام اور واشنگٹن کے درمیان رابطوں پر پارلیمان کو اعتماد میں نہ لینے پر بعض اراکین سینیٹ کی طرف سے حکومت اور عسکری قیادت پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔

اس کے علاوہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور اس کے کردار پر بھی سینیٹ میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

پاکستان کو درپیش سلامتی کے چینلجوں کے علاوہ دیگر اُمور پر بھی عسکری قیادت منگل کو ہونے والے اجلاس میں بریفنگ دے گی جب کہ اس کے بعد توقع ہے کہ فوجی افسران اراکین سینیٹ کے بعض سوالات کے جوابات بھی دیں گے۔

ایک روز قبل پیر کو وزیراعظم کی سربراہی میں ملک کے اعلیٰ عسکری اور سیاسی حکام پر مشتمل ’نیشنل سکیورٹی کمیٹی‘ کا اجلاس ہوا تھا۔

اجلاس میں جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بھی شریک تھے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی دیگر اُمور کے علاوہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے علاوہ خیلجی ممالک اور ایران سے پاکستان کے تعلقات پر بھی غور کیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG