انجم ہیرلڈ گل
ووڈرو ولسن سینٹر میں، جنوبی ایشیا سے متعلق شعبے کے سینیر فیلو، مائیکل کوگل مین اورافغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کی سابق خصوصي ایلچی، لورل ملر کی حال ہی میں پاکستان میں منعقد ہونے والے ٹریک ٹو ڈپلومیسی اجلاس سے واپسی ہوئی ہے۔ اُن سے جب امریکی وزیر دفاع جیمس میٹِس کے دسمبر میں ہونے والے دورہ پاکستان کے بارے میں پوچھا گیا، تو کوگل مین کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر دفاع دسمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان جائیں گے، جبکہ اس سے پہلے امریکی فوج کے چیئرمین آف دی جائنٹ چیفس آف سٹاف، جنرل جوزف ڈینفورڈ بھی اسی ماہ پاکستان جائیں گے، اور یہ بہت اہم لمحہ ہے، کیونکہ متعدد چوٹی کے امریکی عہدیداروں نے پہلے ہی پاکستان کو سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کو لگام ڈالے۔
کوگل میں کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں آئندہ چند ہفتوں میں یا شاید آئندہ سال کے شروع میں، شاید یہ وقت آئے گا کہ امریکہ یہ دیکھے گا کہ پاکستان نے اب تک کیا کیا ہے، کیونکہ واشنگٹن نے معلومات اور اطلاعات شیئر کرنا شروع کیں، اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ حقانی نیٹ ورک کی خصوصي سہولتوں اور لیڈروں کے خلاف وہ کرے جو واقعی امریکہ چاہتا ہے۔ اور اگر امریکہ اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان نے وہ سب کچھ واقعی اس طرح سے نہیں کیا جو وہ کہتا رہا ہے، تو اس سے تعلقات میں بڑی رکاوٹ آ سکتی ہے، اور اس کا قدرتی نتیجہ امریکہ کی جانب سے مزید سخت پالیسیاں اپنانے اور شاید سزا کی صورت میں نکلے، جیسے کہ ڈرون حملوں کو وسعت دینا۔ بنیادی طور پر امریکہ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ سب خود کرے گا، جس کا وہ پاکستان سے مطالبہ کرتا رہا ہے۔ تو میرے خیال میں اس تناظر میں تعلقات میں مزید کشیدگیاں آ سکتی ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے سابق خصوصي ایلچی، لورل مِلر کا کہناہے کہ سینئر امریکی عہدیدار پاکستان جا کر پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ بہت واضح گفتگو کریں گے کہ اگر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آنی ہے تو اس کےلیے امریکہ کی پاکستان سے کیا توقعات ہیں، اور میرے خیال میں وہ ممکنہ طور پر اُن اقدامات پر تفصیل سے بات کریں گے، جو امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اٹھائے تا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہو سکے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجود انتظامیہ پاکستان کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن میرے نزدیک، خطے میں موجود معاملات باہم جڑے ہوئے ہیں، اس لیے امریکہ کے اس سمت میں جانے کی بھی حدود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اعتراضات سے بالاتر ہو کر یا پاکستان کو ساتھ ملائے بغیر، افغانستان میں قیام امن کا حقیقی امکان نہیں ہے۔ أفغانستان میں قیام امن کا امکان صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ اس کے لئے قریبی طور پر مل کر کام کریں۔ سو یہ منطق ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ کےلیے سزا دینے کے مقاصد سے پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنانے کی بھی حدود ہیں کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے، اور میرے نزدیک پاکستان کے عہدیداروں میں ایک مثبت تحریک پیدا کرنے کے لیے سخت ایکشن لینے کی بھی ایک حد ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی عہدیداروں نے حقانیوں کے حوالے سے ایسا کوئی اقدام نہیں دیکھا جس سے یہ بنیاد کھڑی کی جا سکے کہ حقانیوں کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ بقول ان کے حقانیوں کو پاکستان میں جس سطح کی نقل و حرکت کی آزادی ہے، اور وہ فنڈ اکٹھا کر سکتے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر ملک میں محفوظ پناہ حاصل ہے تو اس بارے میں واشنگٹن میں مسلسل تشویش پائی جاتی ہے۔