اسلام آباد —
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری عسکریت پسندی میں کی لہر ہزاروں پاکستانی ہلاک اور ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے، مگر اب بھی اس جنگ سے متعلق نا صرف عوام بلکہ سیاسی قیادت کی سطح پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
کئی حلقے تو اب بھی اسے پاکستان کی اپنی جنگ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
اسی تناظر میں پیر کو بلایا گیا سیاسی قائدین کا اجلاس مبصرین کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق رائے کی جانب ایک قدم ہے، مگر ماضی کے تجربات کے پیش نظر ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
دفاعی اور سلامتی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں موجود القاعدہ سے منسلک پاکستانی شدت پسند گروہوں سے بات چیت کے اعلان سے زیادہ اس وقت نواز شریف حکومت کی طرف سے اس کے طریقے کار اور شرائط کی وضاحت زیادہ اہم ہے۔
’’کس طرح وہ طالبان کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کریں گے؟ اگر وہ فرمائش کریں کہ شریعت نافذ کریں تو یہ کہاں تک جائیں گے؟‘‘
اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں ایسے ہی کل جماعتی اجلاس ہوئے تھے جن میں پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان کی بریفنگ کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا تھا۔
پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی کابینہ کے رکن شیخ رشید احمد نے مذاکرات سے متعلق طالبان کے موقف کے بارے میں کہا کہ شدت پسند کہتے تو ہیں کہ وہ راضی ہو جائیں گے لیکن اس مسئلے پر بھی ان میں اختلاف رائے ہے۔
’’حتمی بات ان کی طرف سے بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے وہ کافی آگے بڑھ چکے ہیں، کراچی میں ہیں تو صورت حال لڑائی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ صلح صفائی تو نظر نہیں آتی۔‘‘
حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مذاکرات کی یک طرفہ پیش کش کا خیر مقدم کرنے پر تحریک طالبان نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے سربراہ کو اپنی شوریٰ سے خارج کر دیا تھا۔
قبائلی علاقوں کی سکیورٹی کے سابقہ سربراہ محمود شاہ کہتے ہیں کہ القاعدہ سے قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں پر بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے دباؤ حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتا ہے۔
’’طالبان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جو مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی بات کریں۔ اس طرح ان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر وہ پچھلے تجربات سے نہیں سیکھتے تو ان کا حال وہی ہوگا جو افغان طالبان کا ہوا جو اب امریکہ سے مذاکرات چاہتے ہیں۔‘‘
ماضی میں بھی حکومت اور شدت پسندوں کے درمیاں مختلف مواقعوں پر مذاکرات کے ذریعے معاہدے ہوئے مگر وہ زیادہ عرصے تک نا چل سکے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند ان مذاکرات اور معاہدوں کو اپنی صفیں مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کئی حلقے تو اب بھی اسے پاکستان کی اپنی جنگ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
اسی تناظر میں پیر کو بلایا گیا سیاسی قائدین کا اجلاس مبصرین کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق رائے کی جانب ایک قدم ہے، مگر ماضی کے تجربات کے پیش نظر ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
دفاعی اور سلامتی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں موجود القاعدہ سے منسلک پاکستانی شدت پسند گروہوں سے بات چیت کے اعلان سے زیادہ اس وقت نواز شریف حکومت کی طرف سے اس کے طریقے کار اور شرائط کی وضاحت زیادہ اہم ہے۔
’’کس طرح وہ طالبان کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کریں گے؟ اگر وہ فرمائش کریں کہ شریعت نافذ کریں تو یہ کہاں تک جائیں گے؟‘‘
اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں ایسے ہی کل جماعتی اجلاس ہوئے تھے جن میں پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان کی بریفنگ کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا تھا۔
پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی کابینہ کے رکن شیخ رشید احمد نے مذاکرات سے متعلق طالبان کے موقف کے بارے میں کہا کہ شدت پسند کہتے تو ہیں کہ وہ راضی ہو جائیں گے لیکن اس مسئلے پر بھی ان میں اختلاف رائے ہے۔
’’حتمی بات ان کی طرف سے بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے وہ کافی آگے بڑھ چکے ہیں، کراچی میں ہیں تو صورت حال لڑائی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ صلح صفائی تو نظر نہیں آتی۔‘‘
حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مذاکرات کی یک طرفہ پیش کش کا خیر مقدم کرنے پر تحریک طالبان نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے سربراہ کو اپنی شوریٰ سے خارج کر دیا تھا۔
قبائلی علاقوں کی سکیورٹی کے سابقہ سربراہ محمود شاہ کہتے ہیں کہ القاعدہ سے قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں پر بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے دباؤ حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتا ہے۔
’’طالبان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جو مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی بات کریں۔ اس طرح ان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر وہ پچھلے تجربات سے نہیں سیکھتے تو ان کا حال وہی ہوگا جو افغان طالبان کا ہوا جو اب امریکہ سے مذاکرات چاہتے ہیں۔‘‘
ماضی میں بھی حکومت اور شدت پسندوں کے درمیاں مختلف مواقعوں پر مذاکرات کے ذریعے معاہدے ہوئے مگر وہ زیادہ عرصے تک نا چل سکے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند ان مذاکرات اور معاہدوں کو اپنی صفیں مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔